رسائی کے لنکس

مشرف سے ڈیل میں نواز شریف شامل نہیں تھے: حکومت


وزیراعظم نواز شریف
وزیراعظم نواز شریف

سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کا کہنا ہے کہ وہ مسٹر مشرف کے حمایتی نہیں تاہم معاہدے کی پاسداری ہونی چاہیے۔

پاکستان میں آج کل انکشافات کا دور دورا ہے کبھی تو سابق فوجی جرنیل القاعدہ سے منسلک شدت پسندوں کے خلاف شمالی وزیرستان میں گزشتہ دور میں آپریشن نا ہونے کی وجوہات سامنے لارہے ہیں تو کہیں سابق حکمران فوج و سیاست دان کے درمیان مبینہ معاہدے کا راز افشا کررہے ہیں۔

تاہم نواز شریف انتظامیہ کی طرف سے یا تو سابقہ عہدیداروں کو خاموش رہنے کی تلقین کی گئی یا پھر ان کی تردید۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نےجمعہ کو صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ سابق فوجی صدر پرویز مشرف کا 2008 میں استعفیٰ دینا اور بعد میں ملک سے باہر جانا ایک معاہدے کے تحت ہوا اور اس میں اس وقت کی حزب اختلاف کی جماعت پاکستان مسلم لیگ ن کی رضا مندی شامل تھی۔

سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی
سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی

ان کا کہنا تھا کہ وہ مسٹر مشرف کے حمایتی نہیں تاہم معاہدے کی پاسداری ہونی چاہیے۔

’’اس وقت واضح پیغام یہ تھا کہ اگر جنرل مشرف استعفیٰ دیں تو انہیں ہم ’باعزت طریقے سے جانے‘ دیں گے۔تو جب اس وقت پوری قوم متفق تھی اس کے بعد موجودہ مسلم لیگ کا جو رول ہے وہ غیر ضروری ہے۔ جب کمٹمنٹ ہو چکی تھی تو اس کی پاسداری کرنا چاہیے تھی۔‘‘

نواز انتظامیہ کے مرکزی ترجمان سینیٹر پرویز رشید نے ہفتہ کو ہی اس بات کی تردید کی کہ وزیراعظم نواز شریف نے پیپلز پارٹی کے سابقہ دور حکومت میں اسٹبلیشمنٹ سے فوج کے سابق سربراہ کے خلاف کوئی کارروائی نا کرنے کے لیے مذاکرات کیے۔ ان کے بقول اس وقت کی حکومت کی خواہش کے برعکس پاکستان مسلم لیگ (ن) نے پرویز مشرف کے اقدامات کو پارلیمان سے استثنیٰ دلوانے کی مخالفت کی تھی۔

’’جب نواز شریف اور زرداری بھوربن معاہدے پر دستخط کررہے تھے اس وقت یوسف رضا گیلانی اسٹبلشمنٹ سے مذاکرات کررہے تھے اور انہوں نے کہا کہ اسٹبلشمنٹ دوسروں کے ساتھ رابطے میں بھی تھی۔ اب دوسرے کون تھے اس کا انہوں نے نہیں بتایا۔ لیکن مجھے معلوم ہے کہ دوسروں میں نواز شریف صاحب شامل نہیں تھے۔‘‘

ان کا کہنا تھا کہ مشرف کا معاملہ اب عدالت کے پاس ہے اور اگر اس معاہدے کے بارے میں سابق فوجی صدر کے پاس کچھ ہے تو عدالت کے سامنے پیش کریں۔

پیپلز پارٹی کے دور میں مقامی میڈیا اور سرکاری عہدیداروں کے مطابق نواز شریف کے بھائی و وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف اور موجودہ وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان فوج اور اسٹبلشمنٹ سے رابطے رکھا کرتے تھے۔

پرویز مشرف کے وکلا نواز انتظامیہ پر الزام لگاتے آئے ہیں کہ ان کے موکل کے خلاف آئین شکنی کی کارروائی ذاتی عناد کے تحت شروع کی گئی۔ تاہم حکومت میں شامل سینئیر عہدیدار اس کی تردید کرتے ہیں۔

سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے یہ بھی انکشاف کیا کہ ان کے دور کے آرمی چیف کے مطالبے پر ان کی حکومت نے شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن شروع کرنے کا فیصلہ جنرل اشفاق کیانی پر چھوڑ دیا تھا۔ یاد رہے کہ فوج کے سابق ترجمان اطہر عباس کے بقول فوجی کارروائی سے متعلق اس وقت کے آرمی چیف کی ہچکچاہٹ کی ایک بڑی وجہ سیاسی عدم اتفاق بھی تھا۔

حال ہی میں پاکستانی فوج کی طرف سے گزشتہ ماہ شروع ہونے والے آپریشن کے بارے میں ایک بریفنگ میں بتایا گیا کہ افغانستان سے متصل شمالی وزیرستان القاعدہ سے منسلک عسکریت پسندوں کا گڑھ بن چکا تھا اور وہاں سے جنگجو نا صرف پاکستان بلکہ سرحد پار بھی مہلک کارروائی کرتے تھے۔

XS
SM
MD
LG