رسائی کے لنکس

این آر او : پی پی کا پہلا با ضابطہ رد عمل


این آر او : پی پی کا پہلا با ضابطہ رد عمل
این آر او : پی پی کا پہلا با ضابطہ رد عمل

سپریم کورٹ میں این آر او نظر ثانی کیس کی درخواست مسترد ہونے کے بعد پیپلزپارٹی کی جانب سے پہلا باضابطہ رد عمل سندھ سے آیا ہے ، جہاں صوبائی قیادت نے الزام عائد کیا ہے کہ دائیں بازوں کے سیاستدان عدالتوں کو استعمال کررہے ہیں،این آر او سے آٹھ ہزار سے زائد افراد مستفید ہوئے، لیکن گفتگو صر ف ایک ہی شخص کے بارے میں ہو رہی ہے۔ دوسری جانب، قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ عدالتی فیصلے پر عملدرآمد ہونا چاہیئے ۔

عدالتی فیصلے پر پی پی سندھ کا رد عمل
سپریم کورٹ کی سترہ رکنی بینچ کی جانب سے این آر او نظر ثانی کیس کی درخواست مسترد ہونے کے بعد پارٹی کے جنرل سیکریٹری تاج حیدر نے جمعہ کو پیپلزمیڈیا سیل کراچی میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت عوام میں یہ تاثر عام ہے کہ عدلیہ سیاست کا حصہ بنی ہوئی ہے اور ملک میں جمہوریت کے خاتمے کیلئے اسے دائیں بازو کے سیاستدان استعمال کر رہے ہیں۔

اس موقع پر تاج حیدر کا کہنا تھا کہ این آر او سے 8041افراد کو فائدہ پہنچا لیکن آج گفتگو صرف صدر آصف زرداری کے حوالے سے ہی کی جاتی ہیں، جنہوں نے جھوٹے مقدمات میں 10سال کی جیل کاٹی جبکہ ان پر ایک بھی مقدمہ ثابت تک نہ ہوسکا۔

انہوں نے کہا کہ اس سے یہ بات صاف ہے کہ دوسری طرف سے جو بات کی جارہی ہے اس سے ملک میں انارکی اور انتشار پھیلے اور وہ ادارے منظم اور طاقتور ہوں جو اس ملک اور اقتدار پر قابض ہوسکیں، این آر او کو ہم نے ری ویلیڈیٹ نہیں کیا ، ہم اس کو قانون بنا سکتے تھے، لیکن ہم نے سپریم کورٹ کے ہر فیصلے کا احترام کیا ہے۔

تاج حیدر کے مطابق عدلیہ کو حدیبیہ، رائے ونڈ اسکینڈل سمیت دیگر 27 سے زائد بڑے بڑے مالیاتی غبن کیوں نظر نہیں آتے اور عدالتیں اس کا نوٹس کیوں نہیں لیتیں۔ انہوں نے کہا کہ گذشتہ 30 برسوں سے عدالتوں میں ہزاروں کیسیز التوا کا شکار ہیں اور لاکھوں افراد انصاف کے لئے دربدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں لیکن ہماری عدالتوں کو دائیں بازوں کے سیاستدان استعمال کررہے ہیں تاکہ وہ اس ملک سے جمہوریت کا خاتمہ کرسکیں۔

اس موقع پر وزیر اطلاعات سندھ شازیہ مری نے کہا کہ ہمارا مقابلہ کسی ادارے سے نہیں بلکہ اداروں کے غلط اصولوں سے ہے۔ انہوں نے سپریم کورٹ پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ انہیں سنہ2010کا وکلا تشدد کیس کا مکمل فیصلہ سنانا کیوں یاد نہیں ہے ، اس کے علاوہ سنہ 2009 اور اس کے بعد کئی ایسے کیسیز ہیں جو سوموٹو ایکشن کے طور پر لئے گئے لیکن ان کے فیصلے آج تک عوام کو فائدہ نہیں اٹھاسکے۔

قانونی ماہرین کا رد عمل
ملک کے مختلف میڈیا چینلز اور میڈیا سے گفتگو میں قانونی ماہرین نے اپنا رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد ہونا چاہیئے ۔سابق صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن عاصمہ جہانگیر کا کہنا ہے کہ وہ این آر او ڈیل پر بہت پہلے

یہ موقف اختیار کرچکی تھیں کہ یہ ڈیل زیادہ دیر نہیں چل سکے گا۔

جسٹس (ر) وجیہ الدین نے فیصلے کو درست قرار دیتے ہوئے کہا کہ عدلیہ کی جانب سے ایسا فیصلہ بہت پہلے آجانا چاہیئے تھا۔

سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر یاسین آزاد کا کہنا ہے کہ حکومت کو فیصلے پر ہر صورت عمل درآمد کرنا ہو گا اور انہیں یقین ہے کہ ایسا ہی ہو گا ۔

معروف وکیل ایس ایم ظفر نے کہا کہ این آر او سے فائدہ اٹھانے والوں کو قوم سے معافی مانگنی چاہیئے ۔

ممتاز قانون دان بیرسٹر اعتزاز احسن کا کہنا ہے کہ عدالتی فیصلوں پر عملدرآمد ہونا چاہیئے ، سوئس بینکوں کو خط لکھنے سے کوئی طوفان نہیں آئے گا ۔

XS
SM
MD
LG