رسائی کے لنکس

وفاقی وزارت داخلہ کی کارکردگی پر حزب اختلاف کی تنقید


رحمن ملک
رحمن ملک

وفاقی وزیر داخلہ رحمن ملک نے اس تنقید کو مسترد کرتے ہوئے ایوان کو بتایا کہ اپوزیشن کے دعوؤں کے برعکس اُن کی وزارت کی کارکردگی اطمینان بخش رہی ہے اور اُن کے بقول تنقید کرنے والے اراکین سلامتی سے متعلق اداروں کے کام کرنے کے انداز سے بظاہر نا واقف ہیں۔

پاکستان کی پارلیمان کے ایوان زیریں میں حزب اختلاف کے اراکین نے وفاقی وزارت داخلہ پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ وزارت ملک میں امن و امان بہتر بنانے کی اپنی ذمہ داریاں نبھانے میں ناکام رہی ہے۔

قومی اسمبلی میں ان دنوں نئے مالی سال کے وفاقی بجٹ میں کٹوتی کی تحاریک پر بحث جاری ہے اور منگل کو وزارت داخلہ کے لیے 55 ارب 69 کروڑ روپے سے زائد کے نو مطالبات زر کی منظوری دی گئی، جب کہ اپوزیشن کی 87 تحاریک کو مسترد کر دیا گیا۔

اجلاس میں وزارت داخلہ کی کارکردگی پر تنقید کرنے والوں میں مسلم لیگ (ن) کے ایاز امیر اور پیپلز پارٹی کے ایک دھڑے سے تعلق رکھنے والے سابق وزیر داخلہ آفتاب شیر پاؤ نمایاں تھے۔

ان اراکین نے اپنی تقاریر میں الزام لگایا کہ وزارت داخلہ کو خطیر رقوم دی جا رہی ہیں لیکن اس کے باوجود امن و امان کی صورت حال خراب سے خراب تر ہو رہی ہے، جب کہ ملک کے کسی حصے میں شہریوں کی جان و مال محفوظ نہیں۔

ایاز امیر کے بقول ”سب سے مشکل کام آج کل قانون کے نفاذ کا ہے ... کلیدی کردار وزارت داخلہ کا ہے لیکن موجودہ کارکردگی بالکل ناکافی ہے۔“

مزید برآں اپوزیشن اراکین کا موقف تھا کہ وزارت داخلہ کے تحت کام کرنے والے ادارے نا تو انسانی اسمگلنگ کو روکنے میں کامیاب ہو سکے ہیں اور نا ہی ہدف بنا کر قتل کرنے اور اغوا برائے تاوان کے بڑھتے ہوئے واقعات پر قابو پایا جا سکا ہے۔

وفاقی وزیر داخلہ رحمن ملک نے اس تنقید کو مسترد کرتے ہوئے ایوان کو بتایا کہ اپوزیشن کے دعوؤں کے برعکس اُن کی وزارت کی کارکردگی اطمینان بخش رہی ہے اور اُن کے بقول تنقید کرنے والے اراکین سلامتی سے متعلق اداروں کے کام کرنے کے انداز سے بظاہر نا واقف ہیں۔

”اداروں کو نشانہ نا بنائیں یہ آپ کے بازو ہیں۔ آپ کی ان ہی ایجنسیوں نے پچھلے سال (دہشت گردی کے)1,100 ایسے واقعات وقوع پذیر ہونے سے بچائے ہیں جو عوام کی نظر میں نہیں آئے۔ ہوتا یہ ہے کہ جو واقعہ ہو جاتا ہے گلے پڑ جاتا ہے۔“

اُنھوں نے کہا کہ خاص طور پر ملک کی سلامتی اور دفاع سے متعلق اداروں پر کی جانے والی تنقید بلا جواز ہے۔

دو مئی کو ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کے خلاف خفیہ امریکی آپریشن اور کراچی میں پاک بحریہ کی انتہائی اہم تنصیب پی این ایس مہران پر شدت پسندوں کے حملے کے بعد سلامتی کے اداروں کو ذرائع ابلاغ اور سیاسی حلقوں کی جانب سے کڑی تنقید کا سامنا ہے۔

پاکستانی فوج کے اعلیٰ کمانڈروں کے حالیہ اجلاس کے بعد جاری کیے گئے سرکاری بیان میں کہا گیا تھا کہ بعض حلقے تعصب کی وجہ سے مسلح افواج خصوصاً بری فوج کو ہدف تنقید بنا رہے ہیں۔

XS
SM
MD
LG