رسائی کے لنکس

پاک امریکہ تعلقات: سفارشات پر بحث کے آغاز میں مزید تاخیر


پاکستانی پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں پاک امریکہ تعلقات کی نوعیت سے متعلق سفارشات پر بحث دوسرے روز بھی شروع نہیں ہو سکی۔

منگل کو پارلیمانی کارروائی کے آغاز میں پیپلز پارٹی کی زیرِ قیادت حکمران اتحاد میں شامل عوامی نیشنل پارٹی نے اجلاس تقریباً دو گھنٹے تاخیر سے شروع ہونے کی وجہ سے احتجاجاً ایوان سے علامتی واک آوٹ کیا۔

پیپلز پارٹی کی ایک اور اتحادی جماعت متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے اراکین نے بھی کراچی میں امن عامہ کی تیزی سے بگڑتی ہوئی صورت حال، خاص طور پر ایم کیو ایم کے کارکنوں کی ہلاکت پر اجلاس کا بائیکاٹ کر دیا۔

متحدہ قوم موؤمنٹ کے سینیئر رہنما حیدر عباس رضوی نے پارلیمان کی عمارت کے باہر دھرنے میں شرکت کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کو پہلے داخلی اُمور پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

حیدر عباس رضوی اور وزیر داخلہ رحمٰن ملک
حیدر عباس رضوی اور وزیر داخلہ رحمٰن ملک

’’میری سمجھ میں نہیں آتا کہ اتنی کمزور داخلی صورت حال کے اوپر آپ (حکومت) ایک مضبوط خارجہ پالیسی کی بنیاد رکھنا چاہتے ہیں۔‘‘

ایم کیو ایم کے اراکین کے ایوان سے چلے جانے کے بعد اسپیکر فہمیدہ مرزا نے امریکہ کے ساتھ تعلقات سے متعلق سفارشات پر بحث کرانے کا اعلان کرتے ہوئے قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف چودھری نثار علی خان کو اپنے نقطہ نظر بیان کرنے کی دعوت دی۔

لیکن قائد حزب اختلاف نے کہا کہ جب تک بعض سفارشات پر اُن کی سیاسی جماعت مسلم لیگ (ن) کے تحفظات دور نہیں کیے جاتے وہ اس بحث میں حصہ نہیں لیں گے۔

اُنھوں نے کہا کہ پارلیمانی کمیٹی برائے قومی سلامتی کے مرتب کردہ مسودے میں کہا گیا ہے کہ اس کا مقصد پاکستان کی آزادی اور خودمختاری کا تحفظ ہے لیکن کئی سفارشات اس مقصد کے منافی ہیں۔

’’اس سے بڑھ کر جو تجاویز آئی ہیں وہ قابل عمل نہیں۔ آزادی اور خودمختاری کا دفاع اُس ہی وقت ممکن ہے جب یہ (مسودہ) ایک جامع دستاویز ہو ... ہم آج سے دو مہینے بعد حکومتی اکابرین سے یہ نہیں سننا چاہتے کہ 40 فیصد، 60 فیصد عمل ہو گیا ہے، یا ان سب (سفارشات) پر عمل ہو گا یا کسی پر بھی نہیں ہو گا۔‘‘

چودھری نثار علی خان کا کہنا تھا کہ وہ اس بات کی ضمانت بھی چاہتے ہیں کہ ماضی میں پارلیمان نے جو قرار دادیں اتفاق رائے سے منظور کر رکھی ہیں ان پر بھی حکومت عمل درآمد کرائے۔

اُنھوں نے کہا کہ پاکستانی سرزمین پر امریکی ڈرون حملوں کے خلاف پہلے بھی پارلیمان ایک قرار داد متفقہ طور پر منظور کر چکی ہے لیکن یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔

جمعیت علما اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے بھی نقطہ اعتراض پر تقریر کرتے ہوئے مجوزہ سفارشات پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا اور حکومت کو اپنی عددی اکثریت کی بنا پر ان کی منظوری سے باز رہنے کا انتباہ کیا۔

مولانا فضل الرحمٰن
مولانا فضل الرحمٰن

’’میں حکومت کو متنبہ کرنا چاہتا ہوں کہ اگر آپ نے اکثریت کی بنیاد پر ایسی کوئی قرارداد منظور کی تو حقیقت میں آپ اس پر عمل درآمد نہیں کرا سکیں گے۔‘‘

حکمران پیپلز پارٹی کے سینیئر رہنما سینیٹر رضا ربانی نے اپوزیشن کے اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ کمیٹی برائے قومی سلامتی نے یہ سفارشات سیر حاصل گفتگو کے بعد تیار کی ہیں اور اگر پالیمان ان میں سے بعض کو مسترد کر دیتی ہے تو وہ ایسا کرنے کی مجاز ہے۔

’’پاکستان جب ان سفارشات کو (منظور) یا ان کو رد کرنے کے بعد نئی سفارشات مرتب کرکے پالیسی کی جو حدود طے کرے گی پاکستان کی جو بھی جمہوری حکومت ہو گی اُسے اُن میں رہتے ہوئے کام کرنا ہوگا۔‘‘

سینیٹر رضا ربانی نے کہا کہ ان سفارشات پر باقاعدہ بحث شروع ہونے کے بعد وہ اور ان کے ساتھی تفصیل کے ساتھ ان اسباب کا ذکر کریں جو بعض متنازع شقوں کی اس مسودہ میں شمولیت کی وجہ بنے۔

XS
SM
MD
LG