رسائی کے لنکس

اسلام آباد میں جلسہ جلوس پر پابندی


علامہ طاہر القادری (فائل فوٹو)
علامہ طاہر القادری (فائل فوٹو)

حکمران نواز لیگ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ طاہرالقادری کو جان کا خطرہ ہے۔ حکومت ایک اور بڑے قتل کی متحمل نہیں ہوسکتی کہ اس کی بنیاد پر پھر لوگ ہنگامہ کریں۔

پاکستان عوامی تحریک اور منہاج القران کے سربراہ علامہ طاہر القادری کی کینیڈا سے پیر کو پاکستان آمد سے پہلے دارالحکومت اسلام آباد اور اس متصل شہر راولپنڈی میں حفاظتی انتظامات سخت کردیے گئے ہیں۔

اسلام آباد میں ہر قسم کے اجتماع پر پابندی عائد ہے اور شہر کی مختلف شاہراہوں پر تعینات پولیس اور رینجرز کے اہلکار گاڑیوں کی چیکنگ کر رہے ہیں جبکہ راولپنڈی کی حدود میں اسلام آباد ائیرپورٹ کو جانے والے راستوں کو کنٹینرز اور خاردار تاریں لگا کر بند کردیا گیا ہے اور صرف مسافروں کو ائیر پورٹ جانے کی اجازت دی جا رہی ہے۔

ادھر راولپنڈی انتظامیہ کی طرف سے بھی ایک خط کے ذریعے پاکستان عوامی تحریک کو ان کے رہنما اور کارکنوں کو سکیورٹی فراہم کرنے سے معذرت کر لی گئی ہے۔

حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما علامہ طاہر القادری کی آمد اور ان کی اعلان کردہ ملک گیر احتجاجی مہم کو سیاسی انتشار سے نواز انتظامیہ کو کمزور کرنے کی سازش گردانتے ہیں۔ نواز لیگ کے ترجمان صدیق الفاروق کا وائس آف مریکہ سے گفتگو میں کہنا تھا۔

’’فیڈرل کیپیٹل میں تو جلسے جلوس کی اجازت نہیں دیں گے۔ اگر ائیرپورٹ سے لاہور جانا چاہتے ہیں تو جائیں۔ کیونکہ ان کے بھی کچھ دشمن ہیں اور انہیں بھی جان کا خطرہ ہے تو ہم ایک اور بڑے قتل کے متحمل نہیں ہو سکتے اور اس کی بنیاد پر پھر لوگ ہنگامہ کریں۔ تو سکیورٹی کے لیے مزید اقدامات کیے جائیں گے۔‘‘

2007ء میں پاکستان پیپلزپارٹی کی سربراہ اور سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو بھی راولپنڈی میں ایک انتخابی ریلی سے واپسی پر طالبان عسکریت پسندوں کے بم حملے میں ہلاک ہوگئی تھیں۔

علامہ طاہرالقادری نے بھی اتوار کو لندن سے روانگی سے پہلے صحافیوں سے گفتگو میں خود پر قاتلانہ حملے کے خدشے کا اظہار کیا۔

’’میں نے بھٹو صاحب کا زمانہ بھی دیکھا۔ پی این اے کی تحریک بھی دیکھی مگر اتنی بوکھلاہٹ کبھی نا دیکھی۔ اتنی قانون، انسانی حقوق و سیاسی آزادی کی پامالی نہیں دیکھی۔ شہباز شریف عقل کے ناخن لو تم اپنے اقتدار کی قبر ابھی سے کھود رہے ہو۔‘‘

ان کا کہنا تھا کہ حکومت اپنے اقدامات سے فوج کی شمالی وزیرستان میں جاری شدت پسندوں کے خلاف کارروائی سے توجہ کو "ڈسٹرب" کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

’’ہمارا تعاون فوج کے ساتھ ہے اور پاکستان جا کر بھی میں فوج کے جہاد میں ان کے شانہ بشانہ کھڑا ہوں گا۔‘‘

علامہ طاہرالقادری نے گزشتہ ماہ پاکستان مسلم لیگ ق کے رہنماؤں سے ملاقات کے بعد پاکستان آکر ان کے بقول صحیح معنوں میں جمہوری نظام کے لیے سیاسی جدوجہد کا آغاز کرنے کا اعلان کیا تھا لیکن رواں ہفتے صورتحال اس وقت خراب ہوگئی جب لاہور میں پولیس کی فائرنگ سے پاکستان عوامی تحریک کے کم از کم 12 کارکن ہلاک ہوئے۔

جس پر کئی سیاسی حلقوں کی طرف سے وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے استفے کے مطالبات بھی سامنے آنا شروع ہو گئے۔

نواز لیگ کے ترجمان صدیق الفاروق کہتے ہیں کہ ان حالات کے باوجود حکومت کو کوئی خطرہ نہیں اور حکومت اور فوج کے درمیان ان کے بقول اب کوئی اختلاف نہیں۔

’’کیا فوجی قیادت نہیں دیکھتی کہ 58 اور 71 کے مارشل لا سے پاکستان تقسیم ہوا۔ کیا آپریشن جبرالٹر ناکام نا ہوا اور پھر جو کارگل سے جو پرویز مشرف نے پسپائی اختیار کی اور جس طرح امریکہ کے سامنے جھکتا چلا گیا۔ تو یہ سب کچھ آئین سے انخراف کی وجہ سے ہوا۔‘‘

لاہور میں ہونے والے واقعے پر پنجاب کے وزیراعلیٰ اور وزیراعظم نواز شریف کے بھائی شہباز شریف نے مذمت کرتے ہوئے صوبائی وزیر قانون ثنا اللہ سے استفیٰ طلب کر لیا تھا۔

واقعے کی تحقیقات کے لیے صوبائی حکومت کی طرف سے ایک جوڈیشل کمیشن بھی تشکیل دیا گیا جسے علامہ طاہرالقادری اور چند دیگر سیاسی رہنماؤں نے مسترد کیا ہے۔
XS
SM
MD
LG