رسائی کے لنکس

فوج طلب کرنے کے پیچھے کوئی سیاسی عزائم نہیں: وزیر داخلہ


(فائل فوٹو)
(فائل فوٹو)

حکومت کے فیصلے کے خلاف درخواست میں یہ کہا گیا کہ ماضی میں فوج طلب کرنا جمہوری نظام کے لیے نقصان دہ رہا ہے اس لیے عدالت فوری حکم امتناعی جاری کرے۔

اسلام آباد ڈسٹرک بار کے وکلا نے ہائی کورٹ میں اپنی درخواست میں دارالحکومت میں تین ماہ کے لیے فوج طلب کرنے کے حکومتی فیصلے کو چیلنج کرتے ہوئےکہا کہ اس کا نوٹیفیکیشن وزیراعظم کی منظوری کے بغیر جاری کیا گیا اور امن و عامہ کی کوئی ایسی صورتحال نہیں کہ فوج کو سکیورٹی کے انتظامات سنبھالنے کے لیے بلایا جائے۔

درخواست میں یہ بھی کہا گیا کہ ماضی میں اس طرح کے اقدام جمہوری نظام کے لیے نقصان دہ رہے ہیں اس لیے عدالت فوری حکم امتناعی جاری کرے۔

شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کے ردعمل میں القاعدہ سے منسلک عسکریت پسندوں کی ممکنہ کارروائیوں کے پیش نظر نواز شریف انتظامیہ کے عہدیداروں کے مطابق مقامی انتظامیہ کی معاونت کے لیے فوج کو طلب کیا گیا ہے۔

وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کا اتوار کو صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ یہ فیصلہ فوجی آپریشن کو حتمی شکل دیتے وقت ہی کیا گیا تھا تاہم مشاورت اور چند انتظامی وجوہات کی بنا پر اس کے اعلان میں تاخیر ہوئی۔ ان کا کہنا تھا کہ ضرورت پڑنے پر فوج کو تین ماہ سے پہلے ہی واپس بھیجا جا سکتا ہے۔

’’یہ حفظ ماتقدم کے طور پر کیا گیا تاکہ کسی واقعے سے پہلے ہم عوام اور پاکستان کی حفاظت کا طریقہ کار وضع کریں۔ اٹلی میں دیکھیں، اسپین، برطانیہ اور امریکہ میں دیکھیں وہاں داخلی سکیورٹی کے لیے ایسا کیا جاتا ہے باوجود اس کے کہ ان کی پولیس اور دیگر ایجنسیاں ہم سے زیادہ اچھی تربیت یافتہ ہیں۔ یہ ضروری ہوتا ہے جب جنگ آپ کے گلی کوچوں میں لڑی جا رہی ہو۔‘‘

چودھری نثار علی خان (فائل فوٹو)
چودھری نثار علی خان (فائل فوٹو)

فوج بلانے کے فیصلے کو حزب اختلاف کی جماعتوں نے مسترد کرتے ہوئے اسے نواز انتظامیہ کا مخالفین کے خلاف ایک سیاسی حربہ قرار دیا۔ پاکستان تحریک انصاف کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ حکومت نے ان کی گزشتہ الیکشن میں مبینہ دھاندلیوں کےخلاف 14 اگست کو ہونے والی ریلی کو روکنے کے لیے کیا اور وہ بھی اس کے خلاف عدالت سے رجوع کریں گے۔

پارلیمان میں حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ حکومت کو فوج طلب کرنے کی بجائے معاملات کو سیاسی فیصلوں سے نمٹانا چاہیئے۔

پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے صوبہ سندھ کے وزیر اطلاعات شرجیل میمن اس بارے میں کہتے ہیں۔

’’مسلم لیگ (ن) کا سب سے بڑا مسئلہ ہے کہ ان میں برداشت کا مادہ نہیں ہے۔ جو لاہور میں طاہرالقادری کی ریلی کے ساتھ کیا گیا۔ اس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی اور آج بھی اگر عمران خان صاحب اسلام آباد جلوس لے جانا چاہ رہے ہیں۔ تو ہماری فوج کو بدنام کرنے کی سازش کی ہے انہوں (حکومت) نے ان (فوج) کو سیاسی جماعت کے سامنے کھڑا کر کے۔‘‘

تاہم وزیر داخلہ چوہدری نثار نے پیپلز پارٹی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد میں فوج طلب کرنے کے فیصلے کے پیچھے حکومت کے کوئی سیاسی مقاصد نہیں اور نا ہی اسے کسی جماعت یا اس کی سرگرمیوں سے منسلک کیا جائے۔

’’میرے پاس 21 ایسے احکامات ہیں ان پر تو کوئی نہیں بولا۔ کیونکہ اس وقت ان کی حکومت تھی۔ انہوں نے تو وکلا کے لانگ مارچ کے خلاف فوج کو طلب کیا تھا، الیکشن کے لیے، محرم کے لیے بھی۔‘‘

ان کا کہنا تھا کہ ابھی تک تحریک انصاف کی طرف سے اسلام آباد میں ریلی کی کوئی درخواست نہیں آئی تاہم درخواست کے موصول ہونے پر متعلقہ سکیورٹی اداروں سے مشاورت اور ان کی رائے کے بعد ہی ریلی کی اجازت دینے کا فیصلہ کیا جائے گا۔

گزشتہ ماہ شمالی وزیرستان میں فوجی کارروائی کے بعد دارالحکومت سمیت پاکستان کے دیگر علاقوں میں شدت پسندوں کی کوئی بڑی مہلک کارروائیاں نہیں ہوئیں اگرچہ قبائلی علاقے سے متصل صوبہ خیبرپختونخواہ میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں پر متواتر جان لیوا حملے ہوئے۔ بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ فوراً کارروائی نا کرنا عسکریت پسندوں کی حکمت عملی کا حصہ بھی ہو سکتی ہے۔

XS
SM
MD
LG