رسائی کے لنکس

آبادی میں اضافے کی موجودہ شرح باعث تشویش


آبادی میں اضافے کی موجودہ شرح باعث تشویش
آبادی میں اضافے کی موجودہ شرح باعث تشویش

پاکستانی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ 1960 کے بعد سے اب تک مختلف حکومتوں نے آبادی میں اضافے پر قابو پانے کے لیے جو بھی پروگرام شروع کیے ان میں محدود پیش رفت ہوئی ہے جس کے تناظر میں آبادی کی شرح کم کرنے کے موجودہ اہداف حاصل ہوتے دکھائی نہیں دے رہے۔

وفاقی وزارت بہبود آبادی کی طرف سے جاری کردہ سالانہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگر پاکستان کی آبادی موجودہ شرح یعنی 2.05 سے بڑھتی رہی تو اگلے 33 سالوں میں آبادی دگنی ہو جائے گی جس سے پانی سمیت قدرتی وسائل اور ماحول پر شدید دباؤ پڑے گا اور عام آدمی کا معیار زندگی بہتر کرنے کی امیدیں دم توڑ جائیں گی ۔

وزارت کی اس تشویش سے اقوام متحدہ کے آبادی فنڈ یعنی یو این ایف پی اے کے ایک پاکستانی عہدیدار ڈاکٹر نصیر نظامانی پوری طرح متفق ہیں جن کا کہنا ہے کہ پاکستان میں پانی، خوراک اور رہائش کے وسائل موجودہ آبادی کی ضروریات کے لیے پہلے ہی ناکافی ہیں اور آبادی بڑھنے کا رجحان اگر یہی رہا تو آگے چل کر سنگین مسائل جنم لیں گے۔

ڈاکر نظامانی کا کہنا ہے کہ آبادی پر قابو پانے کے لیے سب سے ضروری ہے کہ لڑکیوں کی کم عمری میں شادی، خواتین کی ناخواندگی، بیٹوں کی خواہش میں تواتر سے بچوں کی پیدائش اور مذہب کی بنیاد پر خاندانی منصوبہ بندی کی مخالفت جیسے رجحانات کی حوصلہ شکنی کی جائے۔ ’’ایک غریب خاندان بیٹوں کی خواہش میں صرف اس لیے آبادی بڑھاتا چلا جاتا ہے کہ مستقبل میں کمانے والے ہاتھ زیادہ ہوں گے لیکن اس خاندان کو یہ احساس نہیں ہوتا کہ ان بچوں کی پرورش کے لیے خود اس پر اور پورے ملک کی معشیت پر کتنا بوجھ پڑے گا‘‘۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں آبادی میں اضافے کی موجودہ شرح خطے اور دنیا میں سب سے زیادہ ہے اور پاکستان جو اس وقت سترہ کروڑ تیس لاکھ افراد کے ساتھ آبادی کے لحاظ سے دنیا کا چھٹا بڑا ملک ہے 2050 تک دنیا کا چوتھا بڑا ملک بن سکتا ہے۔

وزارتی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گذشتہ دہائیوں کے دوران آبادی پر کنٹرول کے لیے شروع کیے گئے پروگراموں میں خاطر خواہ کامیابی حاصل نہ ہونے کی بنیادی وجوہات میں سیاسی عزم کی کمزوری ، پالیسیوں کا عدم تسلسل، وسائل اور استطاعت کا فقدان اور مالی امداد کی کمی قابل ذکر ہیں جس کی ایک مثال یہ ہے کہ سن 2002 سے 2008 کے دوران حکومت نے آبادی پر کنٹرول کے پانچ سالہ پروگرام کے لیے اکیس ارب روپے کی جو رقم مختص کی تھی اس میں سے صرف ساڑھے چودہ ارب روپے فراہم کیے گیے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس مدت کے دوران خاندانی منصوبہ بندی کے لیے چار ارب روپے مالیت کی مانع حمل کی اشیا درکار تھیں جس میں سے صرف 2.9 ارب روپے کی اشیا فراہم کی جا سکیں۔

گذشتہ سالوں کے جائزے کے مطابق ملک میں مانع حمل کا رجحان تیس فیصد پر جامد ہے جبکہ مانع حمل کی پچیس فیصد ضروریات اب بھی پوری نہیں ہو رہیں۔

وزارتی رپورٹ میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ اگر آبادی میں مسلسل اضافے کے ملک کی اقتصادی اور سماجی ترقی پر مضر اثرات کو روکنا ہے تو غیرمعمولی اقدامات کرنا ہوں گے جس میں سب سے ضروری مذہبی رہنماؤں کی شراکت سے پیدائش میں وقفے کے بارے میں شعور پیدا کرنا ہے کیوں کہ حکام کے مطابق ملکی اور عالمی جائزوں سے یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ پیدائش میں وقفہ نہ صرف ماں اور بچے کی شرح اموات میں کمی کرتا ہے بلکہ پورے خاندان کی صحت پر اس کے اچھے اثرات مراتب ہوتے ہیں۔

پاکستان میں زچہ اور بچہ کی شرح اموات بہت زیادہ تصور کی جاتی ہے کیوں کہ ہر ایک لاکھ ماؤں میں سے 276 ہلاک ہو جاتی ہیں جبکہ ہر ایک ہزار نومولود بچوں میں سے 72 ہلاک ہو جاتے ہیں۔

XS
SM
MD
LG