رسائی کے لنکس

پاکستانی صحافیوں کو سلامتی کے علاوہ مالی مسائل کا بھی سامنا


فائل فوٹو
فائل فوٹو

مبصرین کا کہنا ہے کہ صحافت کے مشکل پیشہ تو ہے لیکن حکومت کے ساتھ ساتھ میڈیا ہاؤسز کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اس شعبے سے وابستہ افراد کے لیے سازگار ماحول پیدا کریں تاکہ صحافی آزادانہ طور پر اپنے فرائض انجام دے سکیں۔

پاکستان کا شمار صحافیوں کے لیے مشکل ترین ملکوں میں ہوتا ہے جہاں اس برادری کو اپنے پیشہ وارانہ فرائض کی انجام دہی کے دوران سلامتی سمیت مختلف قسم کے خطرات درپیش رہتے ہیں۔

اتوار کو آزادی صحافت کے عالمی دن کے موقع پر پاکستان میں صحافی برادری نے ایک بار پھر اس بات پر زور دیا ہے کہ حکومت انھیں اپنے کام کو غیر جانبدارانہ طور پر انجام دینے کے لیے سازگار ماحول فراہم کرے۔

حکومتی عہدیدار یہ کہتے ہیں کہ ایسے اقدامات کیے گئے ہیں کہ جن سے پاکستان میں صحافیوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کے علاوہ انھیں مختلف گروپوں کی طرف سے ہراساں کیے جانے کی روک تھام کی جاسکے۔

لیکن ملک میں صحافیوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک بڑی تنظیم پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے سیکرٹری جنرل امین یوسف نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ حکومتی دعوؤں کے باوجود پاکستان میں آزادی صحافت خطرے سے دوچار ہے۔

"مختلف جماعتوں کے پریشر گروپ ہیں اور انتہا پسند گروپ ہیں ان کی وجہ سے ہمیں (صحافیوں کو) بہت سارے چیلنج درپیش ہیں۔ پاکستان کے بعض ایسے علاقے ہیں جہاں صحافت عملاً ناممکن ہے، بلوچستان اور خیبر پختونخواہ کے کچھ علاقے ہیں جہاں بہت سارے پریس کلب بند ہیں اور اس طرح رپورٹنگ بھی نہیں کی جا سکتی ہے جیسا کہ مثبت انداز میں جو رپورٹنگ ہوتی ہے وہ ممکن نہیں ہے"۔

صحافیوں کی ایک نمائندہ بین الاقوامی تنظیم انٹرنیشل فیڈریشن آف جرنلسٹس کے مطابق گزشتہ سال دنیا بھر میں صحافی برادری سے تعلق رکھنے والوں کی سب سے زیادہ ہلاکتیں پاکستان میں ہوئیں اور یہ تعداد 14 بتائی گئی۔

صحافتی تنظیموں کا کہنا ہے کہ ملک میں حالیہ برسوں میں خاص طور پر ہدف بنا کر قتل کیے جانے والے صحافیوں میں سے اکثر کے قاتلوں کو گرفتار نہیں کیا جاسکا اور یہ امر اپنی جگہ تشویش کا باعث ہے۔

جنوب مشرقی ایشیا کے اس ملک میں گزشتہ ایک دہائی کے دوران خاص طور پر الیکٹرانک میڈیا کو فروغ حاصل ہوا اور بے شمار نجی ٹی وی چینلز جن میں بڑی تعداد نیوز چینلز کی ہے شروع ہوئے۔

لیکن صحافیوں کے لیے روزگار کے مواقع بڑھنے کے ساتھ ساتھ ان کے مسائل میں کمی کی بجائے اضافے کی شکایات سامنے آئی ہیں۔

امین یوسف کہتے ہیں کہ سلامتی کے خطرات کے علاوہ صحافیوں کے لیے معاشی مشکلات بھی ایک بہت بڑا مسئلہ بن کر سامنے آیا ہے۔

"چند ادارے ہیں جن کے ہاں (اسٹاف کی) انشورنس بھی ہے اور ان کے ہاں تحفظ اور سلامتی کے اقدمات بھی لیے جاتے ہیں ان کے ہاں تنخواہیں بھی مناسب ہیں لیکن زیادہ تر ادارے ایسے ہیں جہاں یہ نظام بنایا ہی نہیں گیا ہے کہ ہم نے اپنے ملازمین جن سے کام لینا ہے ان کی دیکھ بھال کیسے کرنی ہے، اپنے کام کو کیسے آگے بڑھانا ہے۔ نہ تو ان کی دیکھ بھال کی جاتی ہے نہ ان کو انشورنس (کی سہولت) حاصل ہے نہ ان کےخاندان کی دیکھ بھال کی جاتی ہے (ان کا مقصد صرف) ان سے کام لینا ہے اور انہیں گھر بھیج دینا ہے"۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ صحافت کے مشکل پیشہ تو ہے لیکن حکومت کے ساتھ ساتھ میڈیا ہاؤسز کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اس شعبے سے وابستہ افراد کے لیے سازگار ماحول پیدا کریں تاکہ صحافی آزادانہ طور پر اپنے فرائض انجام دے سکیں۔

XS
SM
MD
LG