رسائی کے لنکس

فوجی مشقیں دیکھنے پاکستانی وزیراعظم سعودی عرب جائیں گے


فائل فوٹو
فائل فوٹو

تجزیہ کار حسن عسکری نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ سعودی عرب سے عسکری تعاون کے بارے میں پاکستان کی طرف سے سامنے آنے والے بیانات واضح نہیں رہے۔

پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف اسلامی ممالک کی فوجی مشقوں کی اختتامی تقریب میں شرکت کے لیے رواں ہفتے سعودی عرب جائیں گے۔

وزارت خارجہ سے پیر کو جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا کہ سعودی عرب کے بادشاہ شاہ سلمان بن عبدالعزیز السعود نے پاکستانی وزیراعظم کو اس دورے کی دعوت دی ہے اور وہ بدھ سے سعودی عرب کے دورے پر روانہ ہو رہے ہیں۔

وزارت خارجہ کے بیان کے مطابق پاکستانی وزیراعظم کے علاوہ کئی دیگر سربراہان کو بھی رعد الشمال نامی مشترکہ فوجی مشقیں دیکھنے کی دعوت دی گئی ہے۔

پاکستان سمیت 21 ممالک سعودی عرب کے شمال میں ہونے والی ان مشقوں میں حصہ لے رہے ہیں۔

سرکاری بیان کے مطابق ان مشقوں کا مقصد دہشت گردوں کی طرف سے لاحق خطرے کا مقابلہ کرنے کے لیے تربیت میں بہتری لانا ہے۔

بیان میں ایک بار پھر اس عزم کا اعادہ کیا گیا کہ سعودی عرب کی سرحدی سالمیت کو اگر کوئی خطرہ ہوا تو اسلام آباد ہمشیہ سعودی عرب کے شانہ بشانہ کھڑا رہے گا۔

وزارت خارجہ کے بیان میں کہا گیا کہ پاکستان نے شدت پسندی، انتہا پسندی اور دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے علاقائی اور عالمی کوششوں کی مسلسل حمایت جاری رکھی ہے اور اس مقصد کے لیے بین الاقوامی برادری کو اپنی حمایت اور تعاون کی پیشکش کی ہے۔

تجزیہ کار حسن عسکری نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ سعودی عرب سے عسکری تعاون کے بارے میں پاکستان کی طرف سے سامنے والے بیانات واضح نہیں رہے۔

سعودی عرب نے گزشتہ سال دہشت گردی کے خلاف 34 سے زائد اسلامی ممالک کے اتحاد کے قیام کا اعلان کیا تھا اور ان فوجی مشقوں میں اس اتحاد میں شامل ممالک کی افواج حصہ لے رہی ہیں۔

گزشتہ اکتوبر میں پاکستان اور سعودی عرب کے فوجیوں کی مشترکہ مشق جہلم کے قریب ہوئی تھی جو کہ انسداد دہشت گردی کی تربیت پر مبنی تھی۔

واضح رہے کہ پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف کے مشیر برائے اُمور خارجہ سرتاج عزیز نے گزشتہ ماہ قومی اسمبلی میں ایک بیان میں کہا تھا کہ سعودی عرب کی زیر قیادت بننے والے 34 اسلامی ممالک کے فوجی اتحاد سے متعلق پاکستان کو بدستور مزید تفصیلات کا انتظار ہے جس کے بعد ہی اُن کے بقول اس فوجی اتحاد میں پاکستان کے کردار سے متعلق فیصلہ کیا جائے گا۔

سرتاج عزیز نے اپنے تحریری جواب میں ایوان کو بتایا تھا کہ اب تک یہ عندیہ دیا گیا ہے کہ اتحاد میں شامل ممالک دہشت گردوں کے خلاف فوجی کوششوں کے علاوہ میڈیا کے ذریعے اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے کی جانے والی کوششوں کو مربوط بنانے میں کردار ادا کریں گے۔

واضح رہے کہ گزشتہ دسمبر میں سعودی عرب نے 34 اسلامی ممالک پر مشتمل ایک فوجی اتحاد کے قیام کا اعلان کیا تھا لیکن اس میں شام، ایران اور عراق شامل نہیں ہیں۔

اگرچہ اتحاد کے قیام کے اعلان کے بعد جنوری میں سعودی عرب کے وزیر خارجہ اور اُن کے بعد وزیر دفاع پاکستان کے دورے کر چکے ہیں۔ لیکن تاحال اسلامی ممالک کے فوجی اتحاد سے متعلق صورتحال اور اس میں پاکستان کا کردار واضح نہیں ہو سکا ہے جس پر بعض قانون ساز بھی تذبذب کا شکار ہیں۔

XS
SM
MD
LG