رسائی کے لنکس

جماعت اسلامی کا اسلام آباد میں دھرنا


جماعت اسلامی کا اسلام آباد میں دھرنا
جماعت اسلامی کا اسلام آباد میں دھرنا

ملک میں بڑھتی ہوئی بدعنوانی اور دیگر معاشرتی مسائل کے خلاف جماعت اسلامی نے اتوار کو دارالحکومت اسلام آباد میں دھرنا دیا۔

پارلیمنٹ کی عمارت کے سامنے کیے جانے والے احتجاج میں جماعت اسلامی کے سربراہ سید منور حسن اور جماعت کی اعلیٰ قیادت بھی شریک ہوئی۔

تقریباً چار ہزار افراد پر مشتمل مجمعے سے خطاب کرتے ہوئے منور حسن نے کہا کہ جماعت اسلامی ایک پر امن جماعت ہے جو پاکستانی عوام کے حقوق کے لیے جدوجہد جاری رکھے گی۔

دھرنے کا مقصد حکومت کی خارجہ اور انسداد دہشت گردی کی پالیسیوں، بد عنوانی میں اضافے، مہنگائی اور بے روزگاری کے خلاف احتجاج تھا۔

منور حسن کا کہنا تھا کہ اگر فوج نے قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں شدت پسندوں کے خلاف بھرپور آپریشن کا آغاز کیا تو ملک کا چپا چپا دہشت گردی کی لپیٹ میں آجائے گا۔

جماعت اسلامی کا اسلام آباد میں دھرنا
جماعت اسلامی کا اسلام آباد میں دھرنا

امریکہ اور دیگر مغربی ممالک پاکستان پر زور دے رہے ہیں کہ افغان سرحد سے ملحقہ اس علاقے میں القاعدہ اور افغان طالبان کے حقانی نیٹ ورک کے ٹھکانے تباہ کیے جائیں۔ پاکستانی عہدیداروں کا موقف ہے کہ علاقے میں اس وقت بھی تقریباً 34 ہزار فوجی موجود ہیں جو ضروری کارروائیاں کر رہے ہیں، جب کہ دیگر شمال مغربی علاقوں میں سلامتی کی صورتحال مستحکم کیے بغیر فوجی شمالی وزیرستان میں عسکریت پسندوں کے خلاف بھرپور کارروائی کی متحمل نہیں ہو سکتی۔

دھرنے میں شامل مظاہرین نے اُن کے بقول غیر قانونی طور پر سکیورٹی فورسز اور خفیہ اداروں کے زیر حراست درجنوں افراد کی رہائی سمیت امریکہ میں سزا یافتہ پاکستانی نژاد امریکی خاتون عافیہ صدیقی کی وطن واپسی کا مطالبہ بھی کیا۔

جماعت اسلامی کا اسلام آباد میں دھرنا
جماعت اسلامی کا اسلام آباد میں دھرنا

حکومت کا کہنا ہے کہ عافیہ صدیقی کی رہائی کے لیے تمام تر کوششیں کی جا رہی ہیں، جب کہ لاپتا افراد کے حوالے سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کا موقف ہے کہ یہ لوگ ان کی تحویل میں نہیں ہیں۔

جماعت اسلامی کی قیادت نے توہین رسالت سے متعلق قانون میں ممکنہ اصلاحات کی کوششوں کی بھی مخالفت کی۔

گذشتہ ماہ صوبہ پنجاب کے ضلع ننکانہ کی ایک عدالت نے 45 سالہ عیسائی خاتون کو توہین رسالت کے ایک مقدمے میں سزائے موت سنائی تھی جس کے بعد ایک بار پھر اس اسلامی قانون کی منسوخی یا اس میں اصلاحات کے مطالبات میں اضافہ ہو گیا ہے۔

وفاقی وزیر برائے اقلیتی امور شہباز بھٹی کے مطابق اس سلسلے میں حکومت جلد ہی مشاورت کا سلسلہ شروع کرنے کا ارادہ رکھتی ہے، جب کہ حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والی رکن قومی اسمبلی شیری رحمان نے انفرادی حیثیت سے قانون میں مجوزہ اصلاحات کا ایک مسودہ بھی پارلیمان میں بحث کے لیے پیش کیا ہے۔

XS
SM
MD
LG