رسائی کے لنکس

نئے صوبوں کا دارومدارقومی کثرتِ رائےسےمشروط ہے:تجزیہ کار


نئے صوبوں کا دارومدارقومی کثرتِ رائےسےمشروط ہے:تجزیہ کار
نئے صوبوں کا دارومدارقومی کثرتِ رائےسےمشروط ہے:تجزیہ کار

پاکستان میں نئے صوبوں کے قیام کےلیے آئینی طریقہٴ کار کی تفصیل بتاتے ہوئے ، تجزیہ کار احمد بلال نے کہا کہ ایسا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ایک دستوری مسودہٴ ترمیم سامنے لایا جائے، جِس کی منظوری کے لیے قومی اسمبلی اور سینیٹ کی دوتہائی اکثریت درکار ہوگی

پاکستان مسلم لیگ ن کی طرف سے صوبوں کے معاملے پر کمیشن بنانے کے مطالبےاورحکومت کی طرف سے مسترد کیے جانے پر اپنی رائے دیتے ہوئے پارلیمانی معاملات پر نظر رکھنے والےنجی ادارے، ’ پلڈاٹ‘ کے ڈائریکٹر احمد بلال کا کہنا تھا کہ لگتا ہےصوبے بنانے کے معاملے پر حکومت سنجیدہ نہیں۔

احمد بلال کا کہنا تھا کہ یہ مطالبہ کہ تنظیم نو کا ایک صوبائی کمیشن بنایا جائے جو معاملے کا جائزہ لےاور متعلقہ فریقوں سے مشاورت کے بعد کوئی اسکیم پیش کرکے پارلیمان کے سامنے لائے، مناسب معلوم دیتا ہے۔

۔اُنھوں نے یہ بات بدھ کو’ وائس آف امریکہ ‘سے گفتگو میں کہی۔ پاکستان میں نئے صوبوں کے قیام کےلیے آئینی طریقہٴ کار کی تفصیل بتاتے ہوئے اُنھوں نے کہا کہ ایسا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ایک دستوری مسودہٴ ترمیم پیش کیا جائے، جِسےمنظوری کے لیے قومی اسمبلی اور سینیٹ میں دوتہائی اکثریت کی ضرورت ہوگی۔

احمد بلال نے مزید کہا کہ جِس صوبے کی حدود میں اِس تبدیلی کا معاملہ ہو، اُس متعلقہ اسمبلی سے بھی دو تہائی کی اکثریت اِس کے حق میں ہونی چاہیئے۔ لہذا، اگر سرائیکی صوبے کی بات ہے تو اِس میں صوبہٴ پنجاب کے علاوہ امکانی طور پر صوبہٴ سرحد یعنی خیبر پختونخواہ بھی شامل ہوگی جِن سےمشورہ کیا جانا لازم ہے، چونکہ ڈیرہ اسماعیل خان کا بھی مطالبہ ہے کہ اُسے بھی سرائیکی صوبے میں شامل کیا جائے۔ لہٰذا، قومی اسمبلی و سینیٹ کے ساتھ ساتھ پنجاب وخیبر پختونخواہ اسمبلیوں سے بھی اِس سلسلے میں الگ الگ دو تہائی اکثریت سےبل منظور کرانا ہوگا۔

احمد بلال کا کہنا تھا کہ ایسے میں جب انتخابات کا موسم سر پر ہے، کثرت ِ رائے لانا اورسیاسی جماعتوں کی طرف سے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنا مشکل ہوگا، جس طرح کی اکثریت اٹھارہویں یا انیسویں ترمیم کے وقت حاصل تھی۔ اُن سے معلوم کیا گیا تھا کہ ایسے میں جب کسی ایک جماعت کو دو تہائی اکثریت حاصل نہیں، اِس طرح کی آئینی ترمیم منظور ہونے کا کتنا امکان ہے۔

احمدبلال کےخیال میں، اِس کے لیے اب اگلے انتخابات کے بعد کی صورتِ حال کا انتظار کرنا ہوگا، اور اُن کے بقول، اِس وقت تو یہ معاملہ خاصا مشکل لگتا ہے۔

لاہور یونیورسٹی آف منیجمنٹ سائنسز (لمس) سے منسلک تجزیہ کار ڈاکٹر رسول بخش رئیس کا کہنا تھا کہ نئے صوبوں کے قیام کے معاملے کو سیاسی پتے کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے۔

اُن کے بقول، ووٹ حاصل کرنے کے لیے، یہ سیاسی پتا اقلیتی سیاسی جماعتیں استعمال کر رہی ہیں۔ لیکن، وہ یہ نہیں سمجھ رہی ہیں کہ اگر اقلیتی گروہ نسل ، زبان یا نئے صوبے کے مطالبےکی بنیاد پرکسی ایسے سوال کومتحرک کرتے ہیں تو پھر اکثریتی کمیونٹی اُس سے گریزاں ہوگی۔

اُن کے الفاظ میں ’یہ ایک خطرناک سیاسی کھیل ہے۔ جو کچھ جماعتیں پنجاب میں کھیلنے کی کوشش کر رہی ہیں، جِن میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ق شامل ہیں۔

اِس سوال ہر کہ پاکستان کے حالات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے نئے صوبوں کے قیام کا معاملہ کتنا اہم ہے، رسول بخش رئیس نے کہا کہ وہ نہیں سمجھتے کہ یہ کو ئی بڑا مسئلہ ہے۔

اُنھوں نے کہا کہ اٹھارہویں ترمیم کے بعد جو اختیارات کی تقسیم ہوئی ہے صوبوں کو اُن میں پھر نئے مرکز بن گئے ہیں۔ جب تک اقتدار کی منتقلی صوبوں کے مرکز سے ضلعی حکومتوں کو نہیں ہوجاتی، لوگ مطمئن نہ ہوں کہ اُن کو جو ترقیاتی فنڈز ہیں وہ مساویانہ طور پر مختص ہو رہے ہیں تب تک یہ مسئلہ کسی نہ کسی صورت میں ضرورموجود رہے گا۔

رسول بخش رئیس کا کہنا تھا کہ پاکستان کی پانچ یا دس سال کی سیاست میں نئے صوبوں کا مسئلہ ضرور رہے گا ، لیکن جب تک کہ قومی کثرتِ رائے نہ ہو، یہ صوبے ابھی بنتے نظر نہیں آتے۔

آڈیو رپورٹ سنیئے:

XS
SM
MD
LG