رسائی کے لنکس

بلوچستان: زیارت ریزیڈنسی کی تعمیر نو کا کام جاری


فائل فوٹو
فائل فوٹو

یہ عمارت 1892ء میں برطانوی راج میں تعمیر کی گئی تھی اور ایک وقت تک یہ برطانیہ کے گورنر کے نمائندے کی سرمائی قیام گاہ کے طور پر استعمال ہوتی رہی۔

پاکستان کے بانی قائد اعظم محمد علی جناح کی آخری قیام گاہ ’’زیارت ریزیڈنسی‘‘ کی تعمیر نو کا کام جاری ہے اور حکام کا کہنا ہے کہ اس عمارت کو ہو بہو اصل شکل میں بحال کیا جائے گا۔

رواں سال 15 جون کو مشتبہ شدت پسندوں نے اس عمارت میں تین دھماکے کر کے اسے تباہ کر دیا تھا اور اس واقعے کی ذمہ داری بعد ازاں کالعدم بلوچ لبریشن آرمی کی طرف سے قبول کی گئی۔

بلوچستان میں واقع زیارت ریزیڈنسی کی تعمیر نو کی نگرانی کرنے والی کمیٹی کے رکن عبدالجبار خان کاسی کا کہنا ہے کہ پہلے مرحلے میں ملبہ ہٹانے کا کام جاری ہے اور اس دوران خاص خیال رکھا جا رہا ہے کہ کسی بھی تاریخی اہمیت کی چیز یا آثار کو نقصان نہ پہنچے جب کہ اسی احتیاط کے باعث تعمیر نو کا کام سست روی کا بھی شکار ہے۔

’’اس (عمارت) کو ہم ہو بہو ویسا ہی تعمیر کر رہے ہیں جیسی یہ پہلے تھی، وہ تعمیراتی سامان جو اس میں استعمال ہوا تھا، ویسا ہی کریں گے جو اُس وقت لکڑی استعمال کی گئی وہی لکڑی ہم استعمال کر رہے ہیں، مطلب ہر چیز بالکل ویسی ہی ہوگی۔‘‘

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے عبد الجبار کاسی نے بتایا کہ تعمیر پر چار یا پانچ کروڑ روپے کا تخمینہ لگایا گیا ہے اور یہ تمام اخراجات حکومت بلوچستان برداشت کرے گی۔

انھوں نے بتایا کہ تعمیر نو کے لیے ملک کے نامور ماہر تعمیر نیئر علی دادا کی خدمات حاصل کی گئی ہیں جب کہ بلوچستان کا محکمہ سول اینڈ ورکس اس کے نقشہ جات تیار کر رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ بہت سی تاریخی نوعیت کی چیزیں تو ضائع ہو گئیں لیکن اب بھی بعض نایاب چیزیں اصل حالت میں یہاں موجود ہیں۔

’’بیڈز اور تاریخی فرنیچر تو جل چکا ہے مگر اس میں کچھ بہت قسم کی نایاب چیزیں تھیں، برتن وغیرہ وہ سب محفوظ ہیں۔‘‘

یہ عمارت 1892ء میں برطانوی راج میں تعمیر کی گئی تھی اور ایک وقت تک یہ برطانیہ کے گورنر کے نمائندے کی سرمائی قیام گاہ کے طور پر استعمال ہوتی رہی۔

قائد اعظم 1948ء میں اپنی وفات سے قبل تقریباً دو ماہ یہاں مقیم رہے۔ ان کے انتقال کے بعد پاکستانی حکومت نے اسے قومی ورثہ قرار دے دیا تھا۔

جون میں شدت پسندوں کے حملے کے دوران اس عمارت میں آگ بھڑک اٹھی تھی لیکن علاقے میں فائربریگیڈ کی سہولت نہ ہونے کے باعث جب تک کوئٹہ سے آگ بجھانے والی گاڑیاں یہاں پہنچیں تو تقریباً 121 سال پرانی لکڑی کی عمارت پوری طرح خاکستر ہو چکی تھی۔

اس حملے سے قبل اس تاریخی ورثے کی حفاظت کے لیے بھی سرکاری طور پر کوئی خاطر خواہ انتظام موجود نہیں تھا۔
XS
SM
MD
LG