رسائی کے لنکس

موسلا دھار بارشوں سے سیلاب زدہ علاقوں میں امدادی سرگرمیاں متاثر


موسلا دھار بارشوں سے سیلاب زدہ علاقوں میں امدادی سرگرمیاں متاثر
موسلا دھار بارشوں سے سیلاب زدہ علاقوں میں امدادی سرگرمیاں متاثر

جمعرات کی شب دیر گئے سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں مون سون بارشوں کا نیا سلسلہ شروع ہونے سے جہاں امدادی کارروائیاں متاثر ہوئیں وہیں سیلابی ریلوں میں اضافے سے ملک کے مزید اضلاع زیر آب آنے اور تباہی میں اضافے کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے۔

شمال مغربی حصوں سے اٹھنے والا پاکستان کی تاریخ کا بدترین سیلابی ریلا پنجاب میں وسیع پیمانے پر دیہاتوں، سڑکوں، پلوں زرعی زمینوں اور کھڑی فصلوں کو تباہ کرتے ہوئے صوبہ سندھ میں داخل ہو چکا ہے۔ اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ اس بڑے سیلابی ریلے سے سندھ میں کم ازکم گیارہ اضلاع کے متاثر ہونے کا شدید خطرہ پیدا ہو گیا ہے اور ان علاقوں سے لاکھوں افراد کو محفوظ مقامات کی طرف منتقل کیا جا رہا۔

محکمہ موسمیات کے ڈائریکٹر جنرل قمرالزمان نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ بارشوں کا یہ نیا سلسلہ دو سے تین روز تک جاری رہے گا۔ اُنھوں نے بتایا کہ زیادہ تر بارشیں صوبہ خیبر پختون خواہ ، پنجاب اور کشمیر کے اُن علاقوں میں ہوں گی جہاں سیلاب سے متاثرین کے لیے امدادی سرگرمیاں جاری ہیں۔

ملک بھر میں سیلاب سے متاثرہونے والے قصبوں اور دیہاتوں کا ملک کے دوسرے حصوں سے زمینی رابطہ منقطع ہونے سے امدادی سرگرمیوں میں شدید مشکلات پیش آ رہی ہیں کیوں کہ ان علاقوں میں سیلاب زدگان کو خوراک و طبی امداد پہنچانے کے لیے امدادی ٹیموں کا مکمل انحصار ہیلی کاپٹروں پر ہے۔ امدادی کارروائیوں میں چھ امریکی فوجی ہیلی کاپٹر اور85 اہلکار بھی حصہ لے رہیں ہیں۔ لیکن جمعرات کی شب دیر گئے شروع ہونے والی موسلادھار بارشوں کے باعث وہ بھی ملک کے متاثرہ حصوں کی طرف پروازیں نہ کر سکے۔

گدو بیراج
گدو بیراج

صوبہ سندھ میں آفات سے نمٹنے کے صوبائی ادارے کے ایک اعلیٰ عہدیدار خیر محمد کلوڑ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ سیلابی ریلا گدو بیراج سے گزر رہا ہے۔ اُنھوں نے بتایا کہ دریائے سندھ میں اونچے درجے کا سیلاب ہے جس سے کشمور، سکھراور گھوٹکی کے اضلاع میں پانی بھرگیا ہے۔ خیر محمد نے بتایا کہ ان تینوں اضلاع میں تقریباً192 دیہات ہیں جہاں آباد ایک لاکھ 25 ہزار سے زائد افراد میں سے 90 فیصد لوگ اپنی مرضی سے متاثرہ علاقوں سے محفوظ مقامات پر منتقل ہو گئے ہیں۔

خیرمحمد کا کہنا ہے کہ سیلابی ریلا جب سکھر بیراج کو عبور کرے گا تو اس بات کا خدشہ ہے مزید آبادی متاثر ہو سکتی ہے۔ اُنھوں نے اس خدشے کا اظہار بھی کیا کہ دریائے سندھ پر قائم بند اور پشتوں کے ٹوٹنے کی صورت میں سیلاب سے ممکنہ تباہی میں اضافہ ہو سکتا ہے۔

مقامی حکام اور اقوام متحدہ کے عہدے داروں کا کہنا ہے کہ سیلابی پانی میں مردہ جانوروں کی لاشوں کی وجہ سے سیلاب زدہ علاقوں میں تعفن پھیل رہا ہے جب کہ گندا پانی پینے سے ان علاقوں میں وبائی و دیگر بیماریوں کے پھیلنے کا خطرہ بھی روز بروز بڑھتا جا رہا ہے۔

مقامی حکام کے مطابق، خیبر پختون خواہ، پنجاب اور سندھ میں سیلا ب نے لگ بھگ 50 لاکھ افراد کو متاثر کیا ہے لیکن کھڑی فصلوں اور بڑے پیمانے پر زرعی زمینوں کے زیر آب آنے سے ملک میں خوراک کی قلت کے خدشات نے بھی جنم لیا ہے جو آگے چل کر مزید خاندانوں کو متاثر کر سکتے ہیں۔

سابق وزیر تجارت و سرمایہ کاری ہمایوں اختر نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ کپاس اور چاول کی فصلوں کی تباہی کے علاوہ مویشیوں اور ملک کے بنیادی ڈھانچے کو پہنچنے والے نقصان کا کل تخمینہ چارسے پانچ ارب ڈالر ہے جو اُن کے مطابق ملک کی کل مجموعی پیداوار کا دو فیصد ہے۔

امدادی کارروائیوں میں پاکستانی فوج کے اہلکار اور ہیلی کاپٹر پیش پیش ہیں جب کہ اس تمام صورت حال پر سرکاری ردعمل میں مبینہ سست روی اور حکمت عملی کے فقدان پر وفاقی و صوبائی حکومتوں پر تنقید میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے جس سے یہ تاثر زور پکڑتا جا رہا ہے کہ ملک کی جمہوری حکومتیں اس طرح کی ناگہانی آفات سے نمٹنے کی اہلیت نہیں رکھتیں۔

XS
SM
MD
LG