رسائی کے لنکس

توہینِ رسالت قانون میں تبدیلی کے خلاف کراچی میں جلسہ


توہینِ رسالت قانون میں تبدیلی کے خلاف کراچی میں جلسہ کا ایک منظر
توہینِ رسالت قانون میں تبدیلی کے خلاف کراچی میں جلسہ کا ایک منظر

پاکستان میں توہینِ رسالت کے قانون میں ترمیم کا معاملہ اس وقت اٹھا جب گذشتہ سال نومبر میں صوبے پنجاب کے ضلع ننکانہ کی ایک ذیلی عدالت نے ایک عیسائی خاتون آسیہ بی بی کو توہینِ رسالت کے جرم میں موت کی سزا سنائی ۔ جس کے بعد رکن قومی اسمبلی شیری رحمان نے اس قانون کے غلط استعمال کو رکوانے کے لیے قومی اسمبلی میں انفرادی حیثیت میں تجاویز پیش کیں۔

پاکستان کی سب سے زیادہ آبادی والے شہر کراچی میں مذہبی جماعتوں کی جانب سے توہین رسالت کے قانون میں تبدیلی کے خلاف اتوار کو ایم اے جناح روڈ پر جلسہ منعقد کیا جارہا ہے اور اس سلسلے میں شہر کے مختلف مقامات بالخصوص نمائش چورنگی پر بینر اور کیمپ لگائے گئے ہیں۔

اس تحریک میں شامل جماعتوں کے کارکنان نے جلسے میں لوگوں کی بڑی تعداد میں شرکت کو یقینی بنانے کے لیے شہر بھر میں پمفلٹس تقسیم کیے ہیں ۔ جلسہ سے قبل شرکاء مزارِ قائد سے تبت سینٹر تک مارچ کریں گے جہاں جمیعت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کے علاوہ جماعت اسلامی کے امیر منور حسن ، حافظ سعید ، مفتی منیب الرحمان اور دیگر مذہبی جماعتوں کے رہنماوٴں کی خطابت متوقع ہے۔

گذشتہ روز کراچی کے مقامی ہوٹل میں مذہبی جماعتوں کی آل پارٹیز کانفرس کے موقع پر مولانا فضل الرحمان نے مقامی ذرائع ابلاغ سے بات کرتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا کہ قومی اسمبلی میں جمع کرایا گیا توہینِ رسالت کے قانون میں ترمیم کا بل واپس لیا جائے اور اس قانون کے تحت مقدمے کے اندراج کے طریقہ کار کا جائزہ لینے والی کمیٹی ختم کی جائے۔

اُنھوں نے کہا کہ جب تک حکومت واضح یقین دہانی نہیں کراتی ، تحریک ختم نہیں ہوگی۔ ان کا کہنا تھا کہ سلمان تاثیر کے قتل کی وجہ سے دینی اداروں اور شخصیات کے خلاف تحقیقات کا جو دائرہ بڑھایا گیا ہے وہ بدنیتی پر مبنی ہے۔

پیپلزپارٹی کی مخلوط حکومت بارہا یہ باور کراچکی ہے کہ وہ توہینِ سالت ایکٹ میں کسی بھی تبدیلی کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی اور اس سلسلے میں حکمراں جماعت کے کسی رکنِ پارلیمان کی جانب سے ترامیم کے لیے جو تجاویز پیش کی گئی ہیں وہ اُن کی اپنی ذاتی رائے ہے جو حکومت کی ترجمانی نہیں کرتی۔

پاکستان میں توہینِ رسالت کے قانون میں ترمیم کا معاملہ اس وقت اٹھا جب گذشتہ سال نومبر میں صوبے پنجاب کے ضلع ننکانہ کی ایک ذیلی عدالت نے ایک عیسائی خاتون آسیہ بی بی کو توہینِ رسالت کے جرم میں موت کی سزا سنائی ۔ جس کے بعد رکن قومی اسمبلی شیری رحمان نے اس قانون کے غلط استعمال کو رکوانے کے لیے قومی اسمبلی میں انفرادی حیثیت میں تجاویز پیش کیں۔

توہینِ رسالت قانون میں تبدیلی کے خلاف کراچی میں جلسہ
توہینِ رسالت قانون میں تبدیلی کے خلاف کراچی میں جلسہ

آنے والے دنوں میں گورنر پنجاب سلمان تاثیر آسیہ سے ملنے جیل گئے اور وہاں اس کی حمایت میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے سزا کی معافی کے لیے صدر سے بات کرنے کا عندیہ بھی دیا۔ تاہم مدہبی جماعتوں کی جانب سے سلمان تاثیر کے اس عمل کی شدید مذمت کی گئی اور فتوے بھی دیے گئے۔ بعد میں چار جنوری کو اسلام آباد کی کوہسار مارکیٹ میں سلمان تاثیر کو ان کے ایک محافظ نے فائرنگ کرکے قتل کردیا ۔ محافط جس کا تعلق پولس کی ایلیٹ فورس سے تھا ، نے بتایا کہ اس نے سلمان تاثیر کو توہینِ سالت کے قانون کو ”کالا قانون“ کہنے پر قتل کیا۔

سلمان تاثیر کے قتل کے بعد پاکستا ن کے متوسط طبقہ کے نوجوانوں میں مذہبی انتہا پسندی کے حوالے سے ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے۔ سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر سلمان تاثیر کے قتل کو بیشتر نوجوان درست قرار دے رہے ہیں جبکہ اس کی مخالفت کرنے والے کم ہیں یا پھر خوف کے باعث خاموش ہیں۔

ملک میں حالیہ شدت پسندی کو دیکھتے ہوئے اس قانون کی ترمیم کی حمایت کرنے والی سیاسی جماعتیں بھی اپنے موقف سے پیچھے ہٹ گئی ہیں اور بات کرنے سے گریزاں دکھائی دیتی ہیں ۔

دوسری جانب سلمان تاثیر سے اظہارِ یکجہتی اور ان کے قتل کے خلاف کراچی سمیت اکثر شہروں میں احتجاجی ریلیاں نکالی گئی ہیں جس میں مذہبی انتہا پسندی کے خلاف نعرے لگائے گئے ۔ اس احتجاج میں سول سوسائٹی کے اراکین سمیت عام افراد بھی شامل ہیں۔

ملک میں ایک طرف مذہبی جماعتوں کا احتجاج جاری ہے تو دوسری طرف سول سوسائٹی حکومت کے موقف پر تنقید کرتے ہوئے اس قانون کی تبدیلی کا مطالبہ کر رہی ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ موجودہ توہینِ رسالت کے قانون کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں اور انتہا پسند عناصر اس کے ذریعے ملک میں خطرناک حالات پیدا کررہے ہیں۔

فائل فوٹو
فائل فوٹو

دریں اثنا کراچی میں ایک بار پھر ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے ۔گذشتہ روز متحدہ قومی موومنٹ کے کارکن کو پیر الٰہی بخش کالونی میں گھر کے باہر قتل کر دیا گیا جس کے بعد شہر کے مختلف علاقوں میں فائرنگ سے مزید چار افراد قتل کردیے گئے۔ اور شام سے پہلے ہی ہوائی فائرنگ اور خوف و ہراس کے باعث شہر کے تجارتی مراکز بند کردیے گئے۔ اس دوران مختلف واقعات میں 30 کے قریب افراد کے زخمی ہونے کی اطلاع ہے جبکہ چار بسوں کو بھی نذرآتش کردیا گیا۔

XS
SM
MD
LG