رسائی کے لنکس

اشتعال انگیز فتوے: سپریم کورٹ سے ازخود کارروائی کا مطالبہ


گورنر پنجاب سلمان تایثر کے قتل کا اقبال جرم کرنے والا ممتاز قادری (فائل فوٹو)
گورنر پنجاب سلمان تایثر کے قتل کا اقبال جرم کرنے والا ممتاز قادری (فائل فوٹو)

وکلاء برادری کے ایک حلقے کی طرف سے ممتاز قادری کی حمایت اور مقدمے میں اُس کا دفاع کرنے کی خواہش کے پیش نظر مبصرین کے خیال میں اب یہ عدالت عظمیٰ کا بھی امتحان ہوگا کہ وہ اقلیتی برادری اور سول سوسائٹی کے مطالبات پر ایسے عناصر کے خلاف کیا کارروائی کرتی ہے جنہوں نے اقبال جرم کرنے والے ممتاز قادری کی نہ صرف سرعام حمایت کی بلکہ اُسے پھولوں کے ہار بھی پہنائے۔

پاکستان میں سول سوسائٹی کی تنظیموں اور اقلیتی عیسائی برادری کے نمائندوں نے ملک کی سپریم کورٹ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اشتعال انگیز فتوے جاری کرنے والے مذہبی عناصر کے خلاف ازخود کارروائی کرے۔

صوبہ پنجاب کے ایک دیہی علاقے سے تعلق رکھنے والی عیسائی خاتون آسیہ بی بی کو توہین رسالت کے جرم میں سزائے موت کے عدالتی فیصلے اور گورنر سلمان تاثیر کے قتل سمیت تحفظ ناموس رسالت ایکٹ سے جڑے حالیہ واقعات پر سیاسی مفادات کی خاطر حکومت پاکستان اور سیاسی جماعتوں کی مبینہ”بے حسی کے مظاہرے“ نے معاشرے کے اعتدال پسند اوروشن خیال حلقوں کےعلاوہ اقلیتی عیسائی برادری کو تشویش میں مبتلا کر رکھا ہے۔

چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری (فائل فوٹو)
چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری (فائل فوٹو)


اس کے باوجود کہ انتہا پسند مذہبی عناصر کی طرف سے مسجدوں اور جلسے جلوسوں میں لوگوں کو تشدد پر اکسانے والے فتوے اور تقاریر ملکی قوانین کی صریحاَ خلاف ورزی ہیں، ان سرگرمیوں میں ملوث افراد کے خلاف ریاست کی طرف سے کوئی کارروائی نہ کرنے کے بعد سول سوسائٹی کی تنظیموں اور پارلیمان میں عیسائی اقلیتوں کی نمائندگی کرنے والے اراکین نے عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری سے اس صورت حال کا ازخود نوٹس لینے کا مطالبہ تیز کردیا ہے۔

ملک کے ایک ممتاز مذہبی دانشور اور اسلام آباد میں ایک نجی یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر انیس نے مساجد سے کسی کو واجب القتل قرار دینے کے فتوؤں کو اسلام اور ملکی قوانین دونوں کے خلاف قرار دیا ہے۔

گورنر سلمان تاثیر کے قتل میں ملوث زیر حراست ممتاز قادری نے اعتراف جرم کرتے ہوئے کہا ہے کہ دو مولویوں کی تقاریر سننے کے بعد اُس نے یہ جرم کیا ہے۔

اس بیان کے پیش نظر سول سوسائٹی کی تنظیموں اور اقلیتی عیسائی برادری کے مطابق آگے چل کر مذہبی جماعتوں کے نکتہ نظر سے اختلاف کرنے والے اعتدال پسند افراد کے خلاف تشدد میں اضافے کا خدشہ ہے اس لیے عدالت عظمیٰ مداخلت کر کے ایک تو آسیہ بی بی کے مقدمے کو سپریم کورٹ منتقل کرنے کی ہدایت جاری کرے اور جن مولویوں نے لوگوں کے واجب القتل ہونے کے فتوے جاری کیے ہیں قانون کی بالادستی کی خاطر اُ ن کے خلاف بھی عدالتی کارروائی کی جائے۔

گذشتہ ہفتے قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران اقلیتی رکن پارلیمان اکرم مسیح گل نے کہا تھا کہ ایسی جماعتیں جو ووٹ کی طاقت سے کبھی بھی حکومت بنانے کی صلاحیت نہیں رکھتیں اُنھوں نے پورے ملک میں عوام کو مذہب کے نام پر یرغمال بنا رکھا ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ گورنر پنجاب کے قتل سے یہ بات ثابت ہو گئی ہے کہ ناموس رسالت ایکٹ کا غلط استعمال ہو رہا ہے اور بعض عناصر اسے ذاتی رنجشوں اور سیاسی انتقام کے لیے استعما ل کر رہے ہیں۔

رکن قومی اسمبلی کے مطابق اگر عدلیہ، پارلیمان اور انتظامیہ نے اس افسوس ناک واقعہ کے حوالے سے اپنا کردار ادا نا کیا تو یہ ادارے اپنی اہمیت کھو دیں گے۔ ”چیف جسٹس آف پاکستان (افتخار محمد چودھری) کو چاہیئے کہ وہ اپنی سربراہی میں سپریم کورٹ کے ججوں پر مشتمل بینچ بنائیں اور اس (قتل) میں ملوث افراد کو بے نقاب کریں اور جنھوں نے سلمان تاثیر کے خلاف فتوے دیے اور ان کے سر کی قیمت رکھی ان افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔“

اکرم مسیح گل کا کہنا تھا کہ پارلیمان کو بھی خوف سے باہر نکل کر اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔

سیاسی معاملات میں فوج کی مداخلت کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں لیکن مبصرین اس امر پر تعجب کا اظہار کر رہے ہیں کہ ملک سے دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خاتمے کی مہم کی قیادت کرنے والی پاکستانی فوج اس تمام صورت حال پر بظاہر خاموش ہے۔

وکلاء برادری کے ایک حلقے کی طرف سے ممتاز قادری کی حمایت اور مقدمے میں اُس کا دفاع کرنے کی خواہش کے پیش نظر مبصرین کا خیال میں اب یہ عدالت عظمیٰ کا بھی امتحان ہوگا کہ وہ اقلیتی برادری اور سول سوسائٹی کے مطالبات پر ایسے عناصر کے خلاف کیا کارروائی کرتی ہے جنہوں نے اقبال جرم کرنے والے ممتاز قادری کی نہ صرف سرعام حمایت کی بلکہ اُسے پھولوں کے ہار بھی پہنائے۔

XS
SM
MD
LG