رسائی کے لنکس

راولپنڈی: کارروائی میں پانچ 'دہشت گردوں' سمیت چھ ہلاک


(فائل فوٹو)
(فائل فوٹو)

پولیس کے مطابق جوڑیاں نامی علاقے میں بدھ اور جمعرات کی درمیانی شب یہ کارروائی کی گئی۔ گھر میں چھپے شدت پسندوں کے فائرنگ سے پولیس کا ایک سب انسپکٹر بھی ہلاک ہو گیا۔

پاکستان کے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد سے متصل شہر راولپنڈی میں سکیورٹی فورسز نے خفیہ معلومات کی بنیاد پر ایک مکان پرچھاپہ مارا اور اس دوران دو خواتین سمیت پانچ مشتبہ شدت پسند مارے گئے جب کہ تین کو گرفتار کر لیا گیا۔

کارروائی کے دوران شدت پسندوں کی فائرنگ سے پولیس کا ایک سب انسکپٹر بھی ہلاک ہو گیا۔

پولیس کے مطابق جوڑیاں نامی علاقے میں بدھ اور جمعرات کی درمیانی شب یہ کارروائی کی گئی۔

جب پولیس اس گھر کے قریب پہنچی جہاں شدت پسند چھپے ہوئے تھے تو مکان میں موجود مسلح افراد نے سکیورٹی اہلکاروں پر فائرنگ شروع کر دی جس سے ایک سب انسپکٹر ہلاک جب کہ تین اہلکار زخمی ہو گئے۔

پاکستان میں داعش کا کوئی وجود نہیں: ترجمان دفتر خارجہ
please wait

No media source currently available

0:00 0:00:45 0:00

راولپنڈی پولیس کےایک اہلکار عمران حیدر نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اس واقعہ کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ یہ کارروائی انٹیلی جنس معلومات کی بنیاد پر کی گئی۔

’’ایلیٹ فورس کی طرف سے چھاپہ مارنے کے دوران (گھر میں چھپے مشتبہ افراد کی طرف سے) مزاحمت ہوئی، اس میں پانچ افراد کی لاشوں کو اسپتال میں منتقل کیا گیا ہے اور ان کی ہلاکت ایسے ہوئی کہ دو خواتین ایک حمیرا قیصر اور ملکہ خاتون (وہاں موجود) تھیں ان میں سے ملکہ خاتون نے خود کش دھماکا کیا جس کی وجہ سے پانچ افراد موقع پر ہلاک ہو گئے۔‘‘

کارروائی کے بعد حراست میں لیے گئے مشتبہ شدت پسندوں سے پوچھ گچھ کے لیے انہیں نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا گیا ہے۔

یہ اطلاعات بھی موصول ہو رہی ہیں کہ جس گھر پر چھاپا مارا گیا وہ مبینہ طور پر پنجاب کے وزیرداخلہ شجاع خانزادہ پر ہلاکت خیز حملے کے سہولت کار کاتھا اور یہاں موجود مشتبہ شدت پسند محرم کے دوران دہشت گردی کی کسی بڑی کارروائی کی مبینہ منصوبہ بندی کر رہے تھے۔

اگست میں شجاع خانزادہ اس وقت ایک خودکش بم دھماکے میں ہلاک ہو گئے تھے جب وہ اٹک میں اپنے آبائی علاقے شادی خان میں لوگوں سے ملاقات کر رہے تھے۔

ملک سے دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے سکیورٹی فورسز کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں اور ان میں نہ صرف دہشت گردوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے بلکہ ان کے سہولت کاروں اور ہمدردوں کے خلاف بھی قانون حرکت میں لایا جا چکا ہے۔

اُدھر مشرق وسطیٰ میں سرگرم شدت پسند گروپ داعش کے جنگجوؤں کی پاکستان میں موجودگی سے متعلق معلومات کے بارے میں پاکستانی وزارت خارجہ کے ترجمان قاضی خلیل نے ایک بار پھر کہا ہے کہ یہ گروہ ملک میں موجود نہیں ہے۔

اُنھوں نے جمعرات کو ہفتہ وار نیوز بریفنگ میں کہا کہ ’داعش‘ کی پاکستان میں موجودگی کو کسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا۔

داعش نے شام اور عراق کے ایک وسیع علاقے پر گزشتہ سال قبضہ کر کے وہاں نام نہاد خلافت قائم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے اپنا دائرہ اثر خراسان تک بڑھانے کا کہا تھا۔ تاریخی اعتبار سے خراسان میں افغانستان، پاکستان اور اس کے قرب و جوار کے علاقے شامل تھے۔

گو کہ پاکستانی عہدیدار یہ کہتے آئے ہیں کہ یہاں داعش کی موجودگی کے آثار نہیں ہیں اور مختلف شدت پسند اس گروپ کا نام استعمال کر کے توجہ حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ لیکن حالیہ مہینوں میں مختلف علاقوں میں داعش کی حمایت سے متعلق تحریری مواد کے علاوہ دیواروں پر اس کے حق میں نعرے بھی دیکھے جا چکے ہیں۔

پاکستان نے دو روز پہلے ہی کہا تھا کہ داعش یا اس سے جڑے کسی بھی فرد کو ملکی سرزمین پر برداشت نہیں کیا جائے گا جب کہ فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف کا بھی یہ بیان سامنے آ چکا ہے جس میں انھوں نے کہا تھا کہ داعش کا سایہ بھی پاکستان پر نہیں پڑنے دیا جائے گا۔

XS
SM
MD
LG