رسائی کے لنکس

مدارس میں اصلاحات کا ابتدائی کام شروع: قانون ساز


(فائل فوٹو)
(فائل فوٹو)

حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) قانون ساز سید عمران احمد شاہ کا کہنا تھا اتحاد تنظیم المدارس کے عہدیداروں سے مجوزہ اصلاحات سے متعلق مشاورت کا عمل جاری ہے۔

قومی اسمبلی نے حالیہ دنوں میں حزب اختلاف کی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کی ایک قانون ساز کی طرف سے پیش کردہ قرارداد منظور کی تھی جس میں مطالبہ کیا گیا کہ ملک میں تمام دینی مدارس کے نصاب میں بہتری اور ان تعلیمی اداروں کو ایک ضابطے کے تحت لایا جائے۔

حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) سے تعلق رکھنے والے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے مذہبی اُمور اور بین المذاہب ہم آہنگی کے رکن سید عمران احمد شاہ نے پیر کو وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ وقت کی ضرورت ہے کہ مدارس کے نصاب کو جدید تقاضوں کے تحت ترتیب دیا جائے۔

’’جیسے کہ موبائل سمز کی رجسٹریشن کا کہا جا رہا ہے یا کرائے داروں کی تفصیلات اکٹھی کی جا رہی ہیں، یہ بھی اسی کا حصہ ہے اور جو مدارس اسلام کے لیے کام کر رہے ہیں انہیں حکومت فنڈز بھی فراہم کرے گی۔‘‘

عمران شاہ کا کہنا تھا کہ ملک میں دینی مدارس کی مرکزی تنظیم اتحاد تنظیم المدارس کے عہدیداروں سے مجوزہ اصلاحات سے متعلق مشاورت کا عمل جاری ہے اور اس کام کو سرانجام دینے کے لیے ایک ادارہ بھی قائم کیا جائے گا۔

حالیہ ہفتوں میں ملک کے مختلف شہروں میں ہونے والے اجتماعات میں سیاسی و مذہبی شخصیات نے دینی مدارس میں اصلاحات کو غیر ملکی ایجنڈے کا حصہ قرار دیتے ہوئے اس کی مخالفت کی۔

حکومت کی اتحادی جماعت جمعیت علما اسلام (ف) کے قانون ساز اور اسلامی نظریاتی کونسل کے سربراہ محمد خان شیرانی نے بھی کچھ ایسے ہی خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔

’’(دہشت گردی یا فرقہ واریت) مدارس کا شاخسانہ نہیں بلکہ عالمی پالیسیوں اور کولیشن فنڈز کا شاخسانہ ہے۔‘‘

حکومت کا کہنا ہے کہ ملک میں لگ بھگ 8 ہزار سے زائد مدارس میں طالب علموں کو دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ عام تعلیم بھی دی جاتی ہے۔

اسلامی دانشور مفتی تقی عثمانی کہتے ہیں ’’حقیقی مسائل، مشکلات کا حل تلاش کرنا یعض اوقات اس لیے مشکل ہوتا کہ ہماری قوم پراپیگنڈے کی عادی ہو چکی ہے۔۔۔۔ (جیسے) کالا باغ ڈیم پر علمی تحقیق سے پہلے وہ ایک سیاسی مسئلہ بن گیا۔ ‘‘

سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے دور میں بھی مدارس میں اصلاحات اور نصاب میں بہتری لانے کی کوشش کی گئی مگر مذہبی اور قدامت پسند گروہوں کی طرف سے شدید مخالفت کے بعد اس منصوبے پر کام ادھورا ہی چھوڑ دیا گیا۔
XS
SM
MD
LG