رسائی کے لنکس

’’صحت مند‘‘ بھیڑوں کی تلفی پرآسٹریلیا کی تشویش


بھیڑوں کا ریوڑ
بھیڑوں کا ریوڑ

ہم قطعاً بیمار بھیڑیں برآمد نہیں کرتے۔ معاملہ کچھ اور ہے جس پر ہمارا کوئی اختیار اور کنٹرول نہیں, آسٹریلوی حکام

آسٹریلیا نے ہزاروں’’صحت مند‘‘ آسٹریلوی بھیڑوں کو بیمار قرار دے کر تلف کرنے کے پاکستانی فیصلے کو افسوس ناک اور حیرت انگیز قرار دیا ہے۔

ایک نجی آسٹریلوی کمپنی نے21 ہزار سے زائد بھیڑوں پر مشتمل یہ کھیپ بحرین برآمد کی تھی مگر وہاں پرحکام نے بعض جانوروں میں وائرس کی تشخیص کے بعد اسے یہ کہہ کر وصول کرنے سے انکار کر دیا تھا کہ مقامی معیار اس کی اجازت نہیں دیتے۔

اس کے بعد بحری جہاز ان بھیڑوں کو لے کر ایک ہفتہ قبل کراچی کی بندرگاہ پر لنگر انداز ہوا جہاں ایک نجی پاکستانی کمپنی نے آسٹریلوی برآمد کنندگان سے سودا کر کے انھیں ملیر میں اپنے فارم پر منتقل کر دیا اور اُس وقت حکام کی طرف سے کسی قسم کے اعتراضات سامنے نہیں آئے۔
آسٹریلیا سے درآمد کی گئی بھیٹریں
آسٹریلیا سے درآمد کی گئی بھیٹریں

لیکن ایک روز قبل صوبائی حکام نے اچانک انکشاف کیا کہ آسٹریلوی بھیڑوں کو تلف کیا جا رہا ہے کیونکہ اُن کے بقول ان میں ایک ایسے’’وبائی‘‘ وائرس کی تشخیص ہوئی ہے جو انسانوں میں منتقل ہو کر ان کی موت کا باعث بن سکتا ہے اس لیے انھیں فوری طور پر تلف کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

سندھ پولٹری ویکسین سینٹر کے مبینہ تجزیے کے مطابق آسٹریلوی بھیڑوں میں سلمونیلا وائرس کی تشخیص ہوئی ہے جو ایسی خوراک کے ذریعے انسان میں منتقل ہو کر موت کا باعث بنتا ہے جسے پوری طرح پکایا نا گیا ہو، اور اگر ان جانوروں کو فوری طور پر تلف نا کیا گیا تو ان کا گوشت کھانے والے لوگ بیمار ہوجائیں گے۔

لیکن اسلام آباد میں آسٹریلیا کے ہائی کمیشن کی ایک ترجمان فرسٹ سیکرٹری میلیسا کیلی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے پاکستانی حکام کے دعوؤں پر تعجب اور حیرت کا اظہار کیا ہے۔

’’پاکستان میں بھیڑوں کی صحت اور اُنھیں تلف کرنے کے فیصلے کے حوالے سے غیر واضح صورت حال افسوس ناک ہے کیونکہ اس سے تاثر ملتا ہے کہ آسٹریلیا بیمار یا خراب معیار کے جانور برآمد کررہا ہے۔‘‘

ترجمان میلیسا کیلی نے کہا کہ آسٹریلوی حکام کے لیے یہ امر اس لیے بھی تشویش اور حیرت کا باعث بنا ہے کہ کراچی کی بندرگاہ پراُتاری گئی بھیڑیں ’’صحت مند‘‘ ہیں اور ان کا گوشت کھانے سے انسانوں کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔

انھوں نے کہا کہ متعلقہ آسٹریلوی حکام نے روانگی سے قبل ان بھیڑوں کا معائنہ کیا تھا جس کے بعد نجی کمپنی کو کلیئرنس سرٹیفیکیٹ جاری کیا گیا کیونکہ وہ بین الاقوامی معیار کے عین مطابق تھیں۔

’’جب یہ جانور پاکستان پہنچے تو ان کا معائنہ کیا گیا اور یہاں بین الاقوامی معیار کی لیبارٹریوں میں تجزیے نے ثابت کیا کہ بھیڑوں کی صحت پاکستان کے معیار پرپوری اترتی ہے۔ ان حالات و واقعات کے تناظر میں ہم اس تذبذب کا شکار ہیں کہ اب ان جانوروں کی صحت کا معاملہ کیوں اٹھایا جارہا ہے۔‘‘


پاکستان میں حالیہ برسوں کے دوران سرکاری اداروں میں بدعنوانی میں اضافہ ہوا ہے اور ناقدین کا کہنا ہے کہ بیمار آسٹریلوی بھیڑوں کی کراچی کی بندرگاہ پر آمد بھی اسی سلسلے کی کڑی ہوسکتی ہے۔

آسٹریلیا میں لائیو اسٹاک ایکسپورٹر کونسل کی ترجمان ایلسسن پن فولڈ نے بھی اس طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھیڑوں کے گوشت کا معائنہ پاکستان میں سرکاری طور پر منظورشدہ ذبح خانے میں کیا گیا تھا۔

’’ہم قطعاً بیمار بھیڑیں برآمد نہیں کرتے۔ ہم اپنے برآمدی کاروبارکے بارے میں بہت سنجیدہ ہیں۔ معاملہ کچھ اور ہے جس پر ہمارا کوئی اختیار اور کنٹرول نہیں۔ نا ہی ہم اس سے نبرد آزما ہونے کی پوزیشن میں ہیں۔‘‘

نجی کمپنی ’پی کے لائیو اسٹاک‘ کے ایک عہدے دارے ذیشان اکرم نے بھی وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے آسٹریلوی بھیڑوں کو کئی خطرناک بیماری لاحق نہیں ہے۔

اُنھوں نے کسی کا نام لیے بغیر کہا کہ جانوروں کو تلف کرنے کا فیصلہ ’’ اُن شرارتوں کی کڑی ہے جن کا مقصد پاکستان میں کاروبار کرنے والوں کی حوصلہ شکنی کرنا ہے‘‘۔
XS
SM
MD
LG