رسائی کے لنکس

مستونگ بم حملے کے خلاف پاکستان میں احتجاج جاری


لواحقین کوئٹہ میں علمدار روڈ پر اپنے عزیزوں کی لاشوں کے ساتھ نقطہ انجماد سے بھی کم شدید سردی میں کھلے آسمان تلے دھرنا دیے ہوئے ہیں جب کہ کراچی، لاہور اور اسلام آباد میں احتجاج جاری ہے۔

بلوچستان کے علاقے مستونگ میں شیعہ زائرین کے بس پر ہونے والے ہلاکت خیز بم حملے میں مرنے والوں کے لواحقین اپنے عزیزوں کی لاشوں کے ہمراہ جمعرات کو بھی کوئٹہ کی علمدار روڈ پر دھرنا دیے ہوئے ہیں جب کہ ملک کے مختلف شہروں میں بھی شیعہ برادری اس حملے کے خلاف سراپا احتجاج ہے۔

منگل کی شب تفتان سے کوئٹہ جانے والی شیعہ زائرین کی ایک بس پر مستونگ کے قریب بم حملے میں خواتین اور بچوں سمیت 28 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔

علمدار روڈ پر نقطہ انجماد سے بھی کم درجہ حرارت میں کھلے آسمان تلے بیٹھے یہ لوگ میتوں کی اس وقت تک تدفین سے انکاری ہیں جب تک انھیں دہشت گردوں کے خلاف موثر کارروائی کرنے کی حکومتی یقین دہانی نہیں کروائی جاتی۔

بلوچستان کے وزیراعلیٰ عبدالمالک بلوچ نے بدھ کو احتجاج کرنے والوں سے ملاقات کی اور ان سے دلی تعزیت کرتے ہوئے ان سے دھرنا ختم کرنے کی درخواست بھی کی۔ لیکن مظاہرین نے اپنے مطالبات تسلیم ہونے تک دھرنا جاری رکھنے کا اعلان کیا۔

عبدالمالک بلوچ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں صوبے میں جاری دہشت گردی کے بارے میں کہا کہ یہ معاملہ ’بہت پیچیدہ‘ ہے، جس سے نمٹنے کے لیے صوبائی حکومت، وفاقی حکومت کی مدد سے، کوششیں کر رہی ہے۔

ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں بھی مختلف مقامات پر شیعہ برادری سے تعلق رکھنے والے افراد نے دھرنا دے رکھا ہے جب کہ جنوبی صوبہ سندھ کے شہروں حیدرآباد، سکھر، لاڑکانہ اور خیر پور سے بھی ایسے ہی احتجاج کی صدا بلند ہو رہی ہے۔

صوبہ پنجاب کے مرکزی شہر لاہور، خیبرپختونخواہ میں پشاور اور وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے جڑواں شہر راولپنڈی کے سنگم پر فیض آباد کے مقام پر بھی سینکڑوں کی تعداد میں لوگ دھرنے دیے ہوئے ہیں۔

مجلس وحدت المسملین کے ایک عہدیدار محمد اصغر عسکری نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ یہ لوگ مستونگ واقعے کے متاثرین سے اظہار یکجہتی کے لیے جمع ہیں۔

’’ہمارا صرف ایک مطالبہ ہے اور وہ یہ کہ پاکستان میں ان دہشت گرد قوتوں کے خلاف ایک ٹارگٹڈ آپریشن شروع کیا جائے، ون پوائنٹ ایجنڈا ہے۔ ہم پرامن شہری ہیں اس ملک کے، محب وطن شہری ہیں، اس ملک کی سلامتی ہمیں عزیز ہے۔ ۔ ۔ لیکن حکومت کی ذمہ داری ہے کہ پاکستان کے عوام کو زندگی کا حق دیا جائے۔‘‘

ادھراقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے بھی حالیہ دنوں میں پاکستان میں ہونے والے دہشت گردانہ واقعات کی مذمت کرتے ہوئے ان پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

جمعرات کو ایک بیان میں رواں ہفتے راولپنڈی کے ایک بازار میں اور بلوچستان میں شیعہ زائرین کی بس پر ہونے والے ہلاکت خیز واقعات پر سیکرٹری جنرل نے فرقہ وارانہ تشدد اور جاری دہشت گردانہ واقعات پر سخت تشویش کا اظہار کیا۔

بیان کے مطابق بان کی مون نے پاکستان کی حکومت اور عوام سے دلی تعزیت کا اظہار کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ اقوام متحدہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف کوششوں میں پاکستانی حکومت کے حمایت جاری رکھنے کے لیے پرعزم ہے۔

بلوچستان میں اس سے قبل بھی شیعہ زائرین کی بسوں پر ہلاکت خیز حملوں کے علاوہ شیعہ ہزارہ برادری کو بم دھماکوں میں نشانہ بنایا جا چکا ہے۔

گزشتہ سال کے اوائل میں ایسے ہی پرتشدد واقعات کی وجہ سے ہزارہ برادری کا احتجاجی دھرنا کئی روز تک جاری رہا تھا جس کے بعد حکومت کو صوبے میں گورنر راج نافذ کرنا پڑا تھا۔

حالیہ مہینوں کے دوران ملک کے مختلف علاقوں میں فرقہ وارانہ کشیدگی کے باعث متعدد شیعہ اور سنی علمائے دین کو بھی ہدف بنا کر قتل کیا جا چکا ہے۔
XS
SM
MD
LG