رسائی کے لنکس

شدت پسندی سے تعلق کے شبہے پر 182 مدارس بند


فائل فوٹو
فائل فوٹو

وزارت داخلہ کی طرف سے قومی اسمبلی میں پیش کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق مدرسوں کے خلاف سب سے زیادہ کارروائیاں سندھ میں کی گئیں۔

پاکستان کے وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا ہے کہ انسداد دہشت گردی کے قومی لائحہ عمل کے تحت کارروائی کرتے ہوئے حکومت نے شدت پسندی میں ملوث ہونے کے شبے میں 182 مدارس کو بند کر دیا ہے، جبکہ مدارس کی جیو میپنگ یعنی ان کے مقام کے اندراج کا کام بڑی حد تک مکمل کر لیا ہے۔

وزارت داخلہ کی طرف سے قومی اسمبلی میں پیش کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق مدرسوں کے خلاف سب سے زیادہ کارروائیاں سندھ میں کی گئیں۔

رکن قومی اسمبلی مہرین رزاق بھٹو کے سوال پر چوہدری نثار علی خان نے قومی اسمبلی میں تحریری جواب میں بتایا کہ جن مدرسوں کو بند کیا گیا ہے، ان میں سے 167 سندھ میں، 13 خیبر پختونخوا میں جبکہ دو پنجاب میں واقع تھے۔

وزیر داخلہ نے بتایا کہ سندھ میں 72 غیر اندراج شدہ مدرسوں کو بھی بند کیا گیا۔

چوہدری نثار علی خان کا کہنا تھا کہ اسلام آباد اور پنجاب میں مدارس کی جیو میپنگ کا کام مکمل کر لیا گیا ہے جبکہ سندھ میں 80 فیصد، خیبر پختونخوا میں 75 فیصد اور بلوچستان میں 60 فیصد کام مکمل کیا گیا ہے۔

مزید تفصیلات بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ملک کے چاروں صوبوں میں 190 مدرسے بیرون ملک سے مالی اعانت حاصل کرتے ہیں جن میں سے 147 پنجاب میں ہیں، 30 بلوچستان میں، سات خیبر پختونخوا میں اور چھ سندھ میں واقع ہیں۔

دسمبر میں قومی اسمبلی میں دیے گئے ایک جواب میں وزیر داخلہ نے کہا تھا کہ گلگت بلتستان کے بھی 95 مدرسے بیرون ملک سے امداد حاصل کرتے ہیں۔ انہوں نے بتایا تھا کہ سعودی عرب، قطر، متحدہ عرب امارات، کویت، ایران، ترکی، امریکہ، برطانیہ اور جنوبی افریقہ سے مدارس کو امداد بھیجی جاتی ہے۔تاہم انہوں نے اس کی مزید تفصیلات نہیں بتائیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے پاکستان علما کونسل کے چیئرمین مولانا طاہر اشرفی نے کہا کہ ان کی تنظیم حکومت کے اقدامات کی حمایت کرتی ہے۔

’’اگر شواہد موجود ہیں کہ کوئی ادارہ دہشت گردی اور انتہا پسندی میں ملوث ہے تو پاکستان علما کونسل، تحفظ مدارس دینیہ اور وفاق المساجد پاکستان جو ہمارے ساتھ متصل تنظیمیں ہیں، ہمارا شروع سے یہی مؤقف رہا ہے جن کے بارے میں شواہد ہوں ۔۔۔۔ تو حکومت انہیں بند کر دے، ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں ہو گا اور اگر حکومت ان مدارس کی فہرست بھی جاری کر دے تو اور بھی بہتر ہو جائے گا، پتہ چل جائے گا کہ وہ کون سے مدارس ہیں۔‘‘

دسمبر 2014 میں پشاور کے آرمی پبلک سکول پر ہونے والے حملے کے بعد حکومت نے تمام سیاسی حماعتوں کی مشاورت سے انسداد دہشت گردی کے لیے قومی لائحہ عمل تشکیل دیا تھا جس میں دیگر اقدامات کے علاوہ مدارس کے اندراج اور نفرت انگریز تقاریر اور مواد کے خلاف کارروائی کے نکات شامل تھے۔

اگرچہ مدرسوں کے اندارج کے متعلق بہت بڑی پیش رفت نہیں کی جا سکی مگر حکومت اور مدرسوں کی نمائندہ تنظیموں کی درمیان اس سلسلے میں مذاکرات جاری ہیں۔

وزیر داخلہ نے قومی اسمبلی کو بتایا کہ قومی لائحہ عمل کے تحت نفرت انگیز تقاریر اور ایسے مواد کی اشاعت و تقسیم کے الزام میں 2,195 افراد کو گرفتار، 73 دکانوں کو سیل کیا گیا اور 2,337 مقدمات درج کیے گئے۔

لاؤڈ سپیکر کے غلط استعمال پر 9,164 مقدمات درج کیے گئے، 9,340 افراد کو گرفتار کیا گیا جبکہ 2,596 الات کو ضبط کر لیا گیا۔

طاہر اشرفی کا کہنا تھا کہ ان کے خیال میں اس کے بہت اچھے اثرات مرتب ہوں گے۔

’’اگر واقعی ہر طرح کا لٹریچر پکڑا جائے، ان کے خلاف پرچے ہوں، وہ قانون کے کٹہرے میں آئیں جو انتہا پسندی پھیلاتے ہیں یا دہشت گردی پھیلاتے ہیں تو یہ بہت خوشی کی بات ہو گی۔ یہ ہمارا مطالبہ تھا۔‘‘

وزیر داخلہ نے قومی اسمبلی کو بتایا کہ کالعدم تنظیموں کے ارکان کے نام انسداد دہشت گردی ایکٹ کے چوتھے شیڈول میں شامل کر دیے گئے ہیں اور اس کی تفصیلات نادرا، ایف آئی اے، الیکشن کمیشن، پاسپورٹ اور لائسنس جاری کرنے والے اداروں، بینکوں، فضائی کمپنیوں کے دفاتر، ملٹری پولیس اور پرائیویٹ سکیورٹی ایجنسیوں میں بھرتی کے دفاتر بھیجی جائیں گی تاکہ ان افراد پر بہتر طریقے سے نظر رکھی جا سکے۔

چوتھے شیڈول کی فہرست میں شامل افراد اپنی نقل و حرکت کے بارے میں پولیس کو آگاہ کرنے کے پابند ہیں۔

XS
SM
MD
LG