رسائی کے لنکس

’ونی‘ کیے جانے کی مفصل رپورٹ پیش کرنے کا حکم


عدالت عظمیٰ
عدالت عظمیٰ

قبائلی رہنماء سرفراز بگٹی نے بینچ کو کہا کہ لڑکیوں کو ونی کرنے کا واقعہ ہوا ہے اور وہ اپنے موقف پر قائم ہیں۔

پاکستان کی سپریم کورٹ نے بلوچستان میں ایک خونی تنازع کے تصفیے کے لیے متاثرہ فریق کو بدلے میں 13 کمسن لڑکیاں دینے یا ’ونی‘ کیے جانے کے جرگے کے فیصلے سے متعلق صوبائی حکام کو ایک مفصل رپورٹ عدالت میں پیش کرنے کی ہدایت کی ہے۔

چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے تین رکنی بینچ نے جمعرات کو جب اس مقدمے کی سماعت شروع ہوئی تو بلوچستان کے ایڈوکیٹ جنرل امان اللہ کنڈھانی نے کہا کہ ایسا کوئی واقعہ ہوا ہی نہیں اور اس بارے میں شواہد نا ہونے کی وجہ سے اس مقدمے کو ختم کیا جائے۔

لیکن کمرہ عدالت میں موجود بارکھان کے قبائلی رہنماء سرفراز بگٹی نے بینچ کو کہا کہ لڑکیوں کو ونی کرنے کا واقعہ ہوا ہے اور وہ اپنے موقف پر قائم ہیں۔

عدالت نے حکومتی وکیل کی مقدمہ ختم کرنے کی درخواست کو رد کرتے ہوئے بلوچستان کے سیکرٹری داخلہ کو ہدایت کی کہ وہ اس واقعہ کی مکمل تحقیقات کر کے رپورٹ عدالت میں آئندہ سماعت میں پیش کریں۔ مقدمے کی سماعت 19 اکتوبر تک ملتوی کردی گئی ہے۔

لڑکیوں کو ’ونی‘ کیے جانے سے متعلق جرگے کے مبینہ سربراہ رُکن صوبائی اسمبلی طارق مسوری بگٹی بھی بدھ کو عدالت کے روبرو پیش ہوئے تھے اور ان کا موقف تھا کہ نا تو انہوں نے ایسے کسی جرگہ کی سربراہی کی اور نا ہی وہ اُس وقت بارکھان میں موجود تھے جہاں جرگے کا انعقاد کیا گیا۔

سپریم کورٹ نے ’ونی‘ کی جانے والی 13 لڑکیوں کو عدالت میں پیش کرنے کا حکم بھی دیا تھا لیکن انھیں پیش نہیں کیا گیا۔

13 لڑکیوں کو ونی کیے جانے کی خبروں کے منظر عام پر آنے کے بعد پاکستان میں انسانی حقوق کی تنظیموں اور بالخصوص اراکین پارلیمان کی طرف سے اس واقعہ کی شدید مذمت کی گئی ہے اور عدالت سے یہ مطالبہ بھی کیا گیا کہ اس غیر قانونی جرگے میں ملوث تمام افراد کو قرار واقعی سزا دی جائے۔
XS
SM
MD
LG