رسائی کے لنکس

قیام امن کی ذمہ داری میں ’کوتاہی‘ نہیں کروں گا: وزیراعظم


عرفان صدیقی نے کہا کہ مستقبل میں جو بھی حکمت عملی ہو گی وہ سیاسی حکومت کے ہاتھ میں ہو گی اور تمام ادارے جیسے پہلے تعاون کر رہے تھے وہ ویسے ہی وہی کردار ادا کرتے رہیں گے۔

پاکستان میں طالبان شدت پسندوں سے مذاکرات کے ذریعے دہشت گردی و انتہا پسندی کے خاتمے اور قیام امن کے لیے حکومت اور طالبان کی نامزد کردہ کمیٹیوں نے جمعرات کو وزیراعظم نوازشریف نے ملاقات کی۔

ملاقات کے بعد جاری ہونے والے ایک سرکاری بیان کے مطابق وزیراعظم نے کہا ہے کہ پاکستان کو ہر قسم کی دہشت گردی سے پاک کر کے عوام کے جان و مال کا تحفظ یقینی بنانا اور امن قائم کرنا حکومت کی اولین ترجیح ہے۔

وزیراعظم نواز شریف نے دونوں کمیٹیوں کے ممبران کو بتایا کہ امن کے بغیر پاکستان کو ترقی اور خوشحالی سے ہمکنار کرنا ممکن نہیں۔

اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان دہشت گردی اور بد امنی کی بہت بھاری قیمت ادا کرچکا ہے اور اُن کے بقول عالمی برادری میں اپنا تشخص بحال کرنے کے لیے امن کا قیام ناگزیر ہوچکا ہے۔

’’بطور وزیراعظم یہ میرا آئینی، دینی، قومی، اخلاقی اور انسانی فریضہ ہے کہ میں آگ اور خون کا سلسلہ بند کر کے ملک اور عوام کو امن دوں۔ میں اپنی یہ ذمہ داری نبھانے میں کوئی کوتاہی نہیں کروں گا۔‘‘

وزیراعظم سے ملاقات میں دونوں کمیٹیوں کے تمام ارکان اور وفاقی وزیرداخلہ چودھری نثار علی خان بھی موجود تھے۔

ملاقات کے بعد صحافیوں سے گفتگو میں طالبان کی کمیٹی کے سربراہ مولانا سمیع الحق نے کہا کہ اب اس عمل کو آگے بڑھانے کے لیے ’مقتدر قوتوں‘ کی ضرورت ہوگی۔

’’ہم نے سوچا کہ فیصلوں کا وقت آگیا ہے رابطے تو ہوگئے دروازہ بھی کھل گیا اب دروازہ کھلنے کے بعد کئی مسائل ایسے آئیں گے کہ اس پر مقتدر قوتوں کی ضرورتی ہوگی جو بااختیار ہوں اور معاملات کو جلدی نمٹا سکیں۔‘‘

مذاکراتی کمیٹیوں کی وزیراعظم نوازشریف سے ملاقات
please wait

No media source currently available

0:00 0:01:24 0:00

ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم نے دونوں کمیٹیوں کی کاوشوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ اب معاملات آگے بڑھانا آسان ہوگیا ہے۔ ان کے بقول وزیراعظم نے کہا کہ وہ کوششیں کریں گے کہ آپریشن کی نوبت نہ آئے۔

حکومت کی تشکیل کردہ مذاکراتی کمیٹی کے رابطہ کار عرفان صدیقی نے ملاقات میں ہونے والی گفتگو کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ طالبان کی کمیٹی نے اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ انھیں طالبان شوریٰ کے ساتھ مزید رابطوں کے لیے سہولت فراہم کی جائے جس پر وزیراعظم نے اتفاق کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ آئندہ طالبان شوریٰ سے کمیٹی کی ملاقات میں حکومت کی مذاکراتی کمیٹی کے کسی نمائندے کی شرکت پر بھی اتفاق کیا گیا۔

مذاکراتی عمل میں فوج کے کردار پر پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں عرفان صدیقی نے کہا کہ فیصلہ سازی کو موثر بنانے کے لیے ایک حکمت عملی بنائی جائے گی جس میں ’’نامہ و پیام سے آگے بات ہو جو بھی فورم بنتا ہے وہ خود فیصلہ کرسکے اس کے لیے جو بھی حکمت عملی ہو گی وہ سیاسی حکومت کے ہاتھ میں ہو گی اور تمام ادارے جیسے پہلے کمیٹی کے ساتھ ہیں ان کا وہی کردار ہوگا۔‘‘

تاہم انھوں نے کسی بھی نئی کمیٹی کی تشکیل اور اس کے ارکان کے بارے میں کہا کہ اس کا فیصلہ وزیراعظم کریں گے۔
XS
SM
MD
LG