رسائی کے لنکس

دہشت گردی سے نمٹنے پر حکومت اب بھی ابہام کا شکار، قانون ساز


(فائل فوٹو)
(فائل فوٹو)

عوامی نشنل پارٹی کے سینئیر رہنما سینیٹر زاہد خان کا کہنا تھا کہ ’’سات ماہ گزرنے کے بعد بھی یہ (مذاکرات کا) لارا ہی لگا رکھا ہے۔ طالبان بات نہیں کرنا چاہتے۔ تو قوم کو بتائیں کہ کیا ڈائریکشن ہے؟ کیا پالیسی ہے؟‘‘

کالعدم شدت پسند تنظیم تحریک طالبان پاکستان کی طرف سے ذرائع ابلاغ کے مطابق ایک بار پھر حکومت سے مذاکرات کو مسترد کرتے ہوئے الزام لگایا گیا کہ نواز شریف انتظامیہ بھی ماضی کی حکومتوں کی طرح بے بس اور انہیں اس بات کی معلومات ہے کہ طالبان کے خلاف کارروائی شروع کرنے کے منصوبے پر کام ہورہا ہے۔

شدت پسندوں کی طرف سے یہ بیان کابینہ کی کمیٹی برائے قومی سلامتی کے اجلاس کے بعد آیا جس میں سیاسی اور عسکری قیادت نے ملک میں خونریز شدت پسندی سے نمٹنے کے لیے بات چیت کے عمل کو ترجیح دینے کا اعادہ کیا۔

منگل کو ہونے والے اجلاس میں قومی سلامتی کی مجوزہ پالیسی کی حمایت بھی کی گئی۔

تاہم اعلیٰ سطحی اجلاس کے کچھ ہی دیر بعد اسلام آباد سے ملحقہ راولپنڈی شہر میں ایک شیعہ امام بارگاہ کے باہر خود کش حملہ آور نے بم دھماکا کر دیا جس میں پولیس افسر سمیت چار افراد مارے گئے۔

اس واقعے کے بعد حکومت کے ناقدین اور سیاسی مخالفین کا کہنا ہے کہ نواز انتظامیہ کی دہشت گردی کے سدباب سے متعلق اب بھی پالیسی اور اقدامات مبہم ہیں۔

پاکستان تحریک انصاف کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی شدت پسندوں سے مذاکرات کو مشتبہ امریکی ڈرون حملوں سے منسلک کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ حکومت بات چیت کے عمل کے دوران امریکہ کی طرف سے ایسے حملے نا ہونے کی یقین دہانی کروائے۔

’’حکومت طالبان کے اعتماد کو جو دھچکا لگا ہے ڈرون حملے کی وجہ سے اسے بحال کرے۔ حکومت کی طرف سے ڈرون پر کوئی یقین دہانی نہیں آئی۔ اگر یہ نہیں ہوتا تو وہ مذاکرات کے عمل میں کیسے آگے بڑھیں گے۔‘‘

انہوں نے راولپنڈی میں ہونے والے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ’’راولپنڈی کا واقعہ ڈرون حملہ نہیں تھا۔ دہشت گردی تھی۔ ہم ہر دہشت گردی کے واقعے کی مذمت کرتے ہیں چاہئے وہ طالبان کرے یا کوئی فرد یا ادارہ کرے۔‘‘

گزشتہ ماہ ہونے والے مشتبہ امریکی ڈرون حملوں میں افغان عسکریت پسند تنظیم حقانی گروپ کے کمانڈروں سمیت القاعدہ سے منسلک پاکستانی طالبان کا سربراہ حکیم اللہ محسود مارا گیا تھا۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے عوامی نشنل پارٹی کے سینئیر رہنما سینیٹر زاہد خان کا سلامتی کے امور پر حکومت کے رویے کے بارے میں کہنا تھا۔

’’سات ماہ گزرنے کے بعد بھی یہ (مذاکرات کا) لارا ہی لگا رکھا ہے۔ طالبان بات نہیں کرنا چاہتے۔ تو قوم کو بتائیں کہ کیا ڈائریکشن ہے؟ کیا پالیسی ہے؟ کل جو آپ کے پنڈی میں حملہ ہوا، کراچی میں ہوا اور اس سے پہلے پشاور میں وہ ہوتے رہیں گے۔ اس کے لیے سدباب کرنے ہیں آپ نے؟ ‘‘

حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سیکرٹری جنرل اقبال ظفر جھگڑا کہتے ہیں کہ مذاکرات ہی کے ذریعے دہشت گردی کا مکمل طور پر خاتمہ ممکن ہے تاہم حکومت کو بدامنی کے خلاف سخت اور موثر اقدامات کرنے چاہیں۔

’’ریڈ لائنز اگر ہم نے ابھی لگا دیں تو ہمیں کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ ہمیں اپنے دروازے کھلے رکھنے چاہیں۔ ہمیں یہ تاثر دینا چاہیے کہ ہماری کوئی شرائط نہیں ہیں۔ آپ بیٹھیں تو پھر بات ہو سکتی ہے کہ آپ کیا چاہتے ہیں اور وہ کیا۔‘‘

گزشتہ ایک دہائی سے زائد عرصے سے جاری انسداد دہشت گردی کی جنگ میں سیکورٹی اہلکاروں سمیت 40 ہزار سے زائد پاکستانی مارے گئے۔

تاہم حکومت نے ستمبر میں تمام سیاسی جماعتوں سے مشاورت کے بعد شدت پسندوں سے مذاکرات شروع کرنے کا اعلان کیا تھا۔ نواز انتظامیہ کا اب بھی موقف ہے کہ طاقت کا استعمال صرف آخری حربہ ہوگا۔
XS
SM
MD
LG