رسائی کے لنکس

طالبان کا مذاکرات کے لیے نئی حکومتی کمیٹی کا خیرمقدم


مولانا سمیع الحق
مولانا سمیع الحق

طالبان کی نامزد کردہ کمیٹی کے سربراہ نے کہا کہ مذاکراتی عمل میں کوئی بھی چیز پارلیمنٹ سے بالا تر نہیں ہو گی۔

پاکستانی طالبان کی نامزد کمیٹی کے دو اراکین قبائلی علاقے وزیرستان میں کالعدم تحریک طالبان کی شوریٰ سے ملاقات کے بعد جمعہ کو واپس پشاور پہنچے۔

پروفیسر ابراہیم اور مولانا یوسف شاہ نے اپنی کمیٹی کے سربراہ مولانا سمیع الحق سے اکوڑہ خٹک میں اُن کی رہائشگاہ پر ملاقات کر کے اُنھیں وزیرستان میں ہونے والی بات چیت کی تفصیلات سے آگاہ کیا۔

بعد ازاں مولانا سمیع الحق نے مذاکرات کاروں اور طالبان کی شوریٰ کے درمیان وزیرستان کے نامعلوم مقام پر ہونے والی ملاقات کے بارے میں بتایا کہ تحریک طالبان پاکستان نے حکومت کی نئی کمیٹی کے قیام کو خوش آئند قرار دیا ہے۔

’’ہماری طرف سے کوئی لیت و لعل یا تاخیر نہیں ہوگی تو بظاہر یہ لگتا ہے کہ کل یا پرسوں اس کمیٹی سے ملاقات ہو گی ہماری ملاقات پہلے ہوئی بھی نہیں ہے تو گویا یہ بھی تعارفی ملاقات ہوگی اور ان کی طرف سے جو پروگرام دیا گیا ہے ملنے کا کہیں بیٹھنے کا اس پر بھی ڈسکس ہو جائے گا کہ وہ کونسی جگہ ہو گی تو پھر اس کے بعد انشا اللہ ہم ان کو لے جائیں گے اور طالبان کے ساتھ بیٹھائیں گے دروازہ پھر کھول دیا ہے اور میز بھی بچھا دیا ہے سجا دیا ہے بلکہ مذاکرات کے لیے۔ اس موقع سے طالبان کو بھی حکومت کو بھی غنیمت سمجھنا چاہیئے۔‘‘

مولانا سمیع الحق نے کہا کہ مذاکراتی عمل سے پارلیمنٹ کو آگاہ رکھا جائے گا۔

’’اور کوئی چیز پارلیمنٹ سے بالاتر نہیں ہو گی اور جو چیز بھی آگے جائے گی تو پارلیمنٹ سے اس کا اعتماد لیا جائے گا۔‘‘

پروفیسر ابراہیم اور مولانا یوسف شاہ حکومت کے فراہم کردہ خصوصی ہیلی کاپٹر پر جمعرات کو شمالی وزیرستان پہنچنے کے بعد طالبان کے نمائندوں کے ہمراہ نامعلوم مقام کی جانب روانہ ہو گئے تھے۔

وفاقی حکومت کی طرف سے طالبان سے مذاکرات کے لیے نئی سرکاری کمیٹی کی تشکیل کے بعد طالبان کی نامزد کردہ شخصیات کا شمالی وزیرستان کا یہ پہلا دورہ تھا۔

حکومت نے اس سال جنوری میں طالبان سے بات چیت کا عمل شروع کرنے کا اعلان کرتے ہوئے چار رکنی کمیٹی تشکیل دی تھی، جو طالبان کی نامزد کردہ کمیٹی سے مذاکرات میں مصروف رہی۔

لیکن اس کمیٹی کے رابطہ کار اور وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے قومی اُمور عرفان صدیقی کے بقول مذاکرات کے پہلے دور میں پیش رفت کے بعد فیصلہ سازی کے لیے نئی کمیٹی کی ضرورت تھی جو حکومت نے تشکیل دے دی ہے۔

طالبان نے حال ہی میں ایک ماہ کی فائر بندی کا اعلان کیا لیکن اس کے کچھ ہی دنوں بعد اسلا م آباد کچہری پر دہشت گرد حملے میں 11 افراد کی ہلاکت کے بعد حکومت اور طالبان کمیٹی کے درمیان بات چیت کے عمل کو دھچکا لگا تھا۔

کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے اس حملے سے لاتعلقی کا اعلان کیا تھا لیکن جس غیر معروف شدت پسند گروہ نے حملوں کی ذمہ داری قبول کی تھی اُس کا دعویٰ تھا کہ وہ ماضی میں طالبان کا حصہ رہ چکا ہے۔

جمعہ کو پشاور اور کوئٹہ میں ہونے والے بم دھماکوں کی طالبان کی مذاکراتی کمیٹی کے سربراہ مولانا سمیع الحق نے مذمت کی۔

میں آج بھی بڑی مذمت کرتا ہوں اور افسوس کا اظہار کرتا ہوں جو سانحے ہوئے ہیں کوئٹہ میں بھی پشاور میں بھی یہ ہماری ساری جدوجہد کو سبوتاژ کرنے کی کوششیں ہیں اور ہمیں پہلے ہی سے اندازہ ہے کہ جب ہم میدان میں آئیں گے اور جتنا تیزی سے قدم اٹھے گا تو سازشیں اور سبوتاژ کرنے کی کوششیں اور مزید بڑھیں گی۔

رواں سال کے اوائل میں وزیراعظم نواز شریف کے طرف سے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے مذاکراتی عمل کی شروعات کے بعد سے اب تک متعدد دہشت گرد حملوں میں لگ بھگ 120 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

حکومت کا کہنا ہے کہ وہ مذاکرات کے ذریعے امن قائم کرنا چاہتی ہے لیکن وہ گروہ جو بات چیت کے اس عمل کو سبوتاژ کرنا چاہتے ہیں اُن کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔
XS
SM
MD
LG