رسائی کے لنکس

طالبان سے مذاکرات میں کوئی ڈیڈلاک نہیں، وزیر داخلہ


چودھری نثار علی خان (فائل فوٹو)
چودھری نثار علی خان (فائل فوٹو)

چودھری نثار کا کہنا تھا کہ شدت پسندوں سے مذاکرات اور اس سے متعلق امور پر فوج اور حکومت میں ’’ہم آہنگی‘‘ ہے۔

نواز شریف انتظامیہ طالبان سے مذاکرات میں تعطل کی تردید کرتی ہے تو عسکریت پسندوں کے رابطہ کاروں کا کہنا ہے کہ شدت پسندوں کے دو گرہوں کے درمیان لڑائی اس عمل میں تعطل کی وجہ تھی۔

طالبان شدت پسندوں کے نامزد کردہ رابطہ کار پروفیسر محمد ابراہیم نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے تعطل کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ ’’طالبان کی آپس میں کوئی لڑائی تھی وہ بند ہوگئی ہے۔ امید ہے کہ مسئلہ حل ہوجائے گا۔ آئندہ مرحلے کے لیے طالبان سے جگہ کا تعین ہونا تھا مگر اس لڑائی کی وجہ سے رابطہ مشکل ہوگیا اور کچھ دیر کے لیے عمل معطل ہوگیا۔ اب حالات سازگار ہوں گے تو بات چیت دوبارہ شروع ہوگی۔‘‘

مقامی قبائلیوں اور سیکورٹی اہلکاروں کے بقول طالبان کے ہلاک شدہ کمانڈر حکیم اللہ محسود اور ولی الرحمٰن کے جنگجوؤں میں مسلح تصادم کی ایک وجہ مذاکراتی عمل پر اختلاف بھی تھا۔ پروفیسر ابراہیم نے اسے مسترد نہیں کیا تاہم ان کا کہنا تھا کہ انہیں اس کا علم نہیں۔

لیکن اتوار کو شام گئے ذرائع ابلاغ سے گفتگو میں وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے نا صرف تعطل بلکہ کسی قسم کے ڈیڈ لاک کے تاثر کو بھی رد کیا۔

’’ڈیڈ لاک تو دور دور تک نہیں ہے۔ اگر ہوا تو میں خود آپ کو بتاؤں گا۔ دوسری طرف (طالبان) سے کہا گیا کہ وہاں اتوار کو کرفیو ہوتا ہے اس لئے مذاکرات ہو نہیں سکتے۔ اس لئے یہ طے ہوگیا تھا کہ یہ آئندہ ہفتے ہوں گے۔‘‘

ان کا کہنا تھا کہ شدت پسندوں سے مذاکرات اور اس سے متعلق امور پر فوج اور حکومت میں ’’ہم آہنگی‘‘ ہے۔

’’اختلاف رائے تو ہوسکتا ہے مگر پالیسی پر اختلاف نہیں۔ زیادہ تر قیدی ان سنٹرز میں ہیں جو فوج کے زیر انتظام ہیں تو یہ کیسے ممکن ہے کہ ان کی مشاورت کے بغیر انہیں (قیدیوں کو) رہا کیا جائے۔‘‘

وفاقی وزیر نے اس بات کی تصدیق کی کہ طالبان کے کچھ گروہ مذاکرات کے بارے میں ’’بہت زیادہ سنجیدہ نہیں‘‘۔

طالبان کے مطالبے پر نواز شریف انتظامیہ کی طرف سے مزید ایک درجن غیر عسکری قیدیوں کی رہائی کے فیصلے کا اعلان کیا گیا تاہم شدت پسندوں کے ترجمان شاہد اللہ شاہد کے بقول طالبان قیدیوں کی رہائی سمیت امن زون کے قیام اور ان کے ساتھیوں کے خلاف کارروائیاں نہیں روکی گئیں۔

حکومت نے رواں ہفتے اسلام آباد میں ہونے والے جان لیوا بم دھماکے کی بلوچ عسکریت پسند گروہ کی طرف سے ذمہ داری قبول کرنے کو مسترد کردیا تھا اور وزارت داخلہ کے ترجمان کے مطابق سیکورٹی اور خفیہ اداروں کی ابتدائی تحقیقات کے مطابق اس کی کڑیاں کہیں اور مل رہی ہیں۔

تجزیہ کار امتیاز گل کا کہنا تھا کہ مذاکرات میں پیش رفت سے متعلق تا حال ابہام سا پایا جاتا ہے۔

’’تعطل کی وجہ طالبان کے مطالبات ہیں۔ دھڑوں میں مذاکرات سے متعلق اختلاف ہوسکتے ہیں۔ لڑائی کی بظاہر وجہ ان دھڑوں میں مالی وسائل، علاقوں پر عمل داری سے متعلق اختلافات ہیں۔‘‘

حکمران جماعت کے قانون سازوں کی اکثریت کی رائے کو پس پشت ڈالتے ہوئے وزیراعظم نواز شریف نے طالبان شدت پسندوں سے مذاکرات شروع کرنے کا فیصلہ کیا تھا اور حکومت میں شامل عہدیدار کہتے آئے ہیں کہ اس عمل کی کامیابی کی ہر ممکن کوشش کی جائے گی تاہم ناکامی کی صورت میں طاقت کا استعمال کیا جا سکتا ہے۔
XS
SM
MD
LG