رسائی کے لنکس

متفقہ و مؤثر لائحہ عمل کی عدم موجودگی انسداد دہشت گردی میں رکاوٹ


(فائل فوٹو)
(فائل فوٹو)

مشاہد حسین کا کہنا تھا کہ شدت پسندی کے خلاف تمام سیاسی جماعتوں اور فوج کو یکجا ہونا ہوگا۔

سانحہ کوئٹہ اور عباس ٹاون کے بعد پشاور میں گزشتہ روز ایک مسجد میں بم حملے نے ملک میں جاری خونریز دہشت گردی کی روک تھام کے لیے ریاستی حکمت عملی سے متعلق ایک بار پھر سوالات کو جنم دیا ہے جبکہ سیاسی رہنماؤں کی طرف سے اسے غیر ملکی سازشیں ہی گردانا جا رہا ہے۔

حکمران اتحاد میں شامل پاکستان مسلم لیگ (ق) کے سیکرٹری جنرل مشاہد حسین سید کا کہنا ہے کہ سانحہ کوئٹہ اور کراچی میں عباس ٹاؤن جیسے واقعات پاکستان کی آزاد اور خود مختار خارجہ پالیسی اختیار کرنے کا ردعمل ہے جس میں اسلام آباد نے گوادر پورٹ چین کے حوالے کی اور امریکہ کی مرضی کے خلاف ایران سے گیس پائپ لائن کے منصوبے پر معاہدہ کیا۔

کراچی میں عباس ٹاون میں بم دھماکے کے متاثرین سے ملاقات کے بعد صحافیوں سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خلاف ریاستی سطح پر متفقہ لائحہ عمل موجود نہیں۔

’’پاکستانی قوم میں جان ہے۔ ہم ایٹمی طاقت ہیں۔ سات لاکھ فوج ہے انٹلی جنس ایجنسیاں ہیں ہم اس مسئلے کو حل کیوں نہیں کر سکتے۔ اپنی ناکامی سے سیکھنا ہو گا۔ سری لنکا سے سیکھنا چاہیئے جیسا کہ انہوں نے بدترین دہشت گرد گروہ کو شکست دی۔‘‘

مشاہد حسین کا کہنا تھا کہ شدت پسندی کے خلاف تمام سیاسی جماعتوں اور فوج کو یکجا ہونا ہوگا۔

ملک میں شدت پسندی کے خاتمے سے متعلق قومی اتفاق رائے پیدا کرنے کے لیے حال ہی میں کل جماعتی کانفرنسز منعقد کی گئیں جس میں کالعدم جنگجو تنظیم تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ مذاکرات کرنے کی حمایت کی گئی اور ایک قبائلی جرگہ کو بھی اس حوالے سے کام کرنے کے اختیارات دیے گئے۔

مگر حکومت میں شامل جماعتوں اور ملک کی سب سے بڑی حزب اختلاف کی جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کا کہنا ہے کہ مذاکرات صرف ملک کے آئین و قانون کے تحت ہونے چاہیئں جبکہ مذہبی اور دیگر دائیں بازوں کی جماعتیں شدت پسندوں کے ساتھ بات چیت سے پہلے شرائط عائد کرنے کی مخالف ہیں۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قانون ساز اور معروف کالم نگار ایاز امیر کا کہنا ہے کہ دہشت گردی سے متعلق معاشرتی اور سیاسی سطح پر ابہام نے اس وباء کو پنپنے کا موقع فراہم کیا ہے۔

’’ہم چھوٹے چھوٹے ٹوٹکوں پر تکیہ کرتے رہے ہیں کہ یہ دہشت گردی کی وجہ ڈرون حملوں یا امریکہ کی افغانستان میں موجودگی ہے۔ امریکیوں کی موجودگی سے مسائل پیدا ہوئے مگر ہمارا بڑا مسئلہ وہ نہیں۔ ہم 2001ء یا 2002ء میں صحیح، صاف عینکیں لگا کر جو فیصلے یا ذہنی ابہام دور کرنا تھا ہم نے نہیں کیا اور اب تک نہیں کیا۔‘‘

پاکستان گزشتہ ایک دہائی سے دہشت گردی کے خلاف برسرپیکار ہے اور اس جنگ میں اب تک سکیورٹی اہلکاروں سمیت 40 ہزار افراد اپنی جانیں گنوا بیٹھے ہیں جبکہ حال ہی میں حکومت کی جانب سے انسداد دہشت گردی کے قانون کو مضبوط بنانے کے لیے پیش کردہ متعدد ترامیم اور نئے قانون پارلیمان نے منظور کیے ہیں۔

انہیں ترامیم میں سے ایک ترمیم کے تحت حکومت اب ان کالعدم تنظیموں کے خلاف کارروائی کر سکے گی جو کہ نئے ناموں کے ساتھ شدت پسندی اور فرقہ واریت کی کارروائیوں میں ملوث ہیں۔

امریکہ میں قائم بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیم ہیومن رائٹس واچ کے پاکستان میں عہدیدار علی دایان حسن کہتے ہیں ’’مسئلہ یہ نہیں کہ کالعدم تنظیمیں کس نئے ناموں سے فعال ہیں۔ مسئلہ ہے کہ ریاست انہیں اس کی اجازت دیتی ہے۔ جب تک ریاست ان تنظیموں کے رہنماؤں کو دو ٹوک پیغام نہیں دیتی کہ خونریزی اب قابل قبول نہیں یہ مسئلہ حل نہیں ہو سکتا۔‘‘

انسداد دہشت گردی سے متعلق ترامیم اور نئے قوانین کی ہر سطح پر پذیرائی کی گئی ہے تاہم مبصرین کا کہنا ہے کہ ان کے فوائد اور موثر عمل در آمد کا اندازہ آئندہ آنے والی حکومت کی دہشت گردی اور انتہا پسندی سے متعلق پالیسی اور کارکردگی سے ہوگا۔
XS
SM
MD
LG