رسائی کے لنکس

ترامیم کے بغیر تحفظ پاکستان آرڈینس منظور نہیں، قانون ساز


(فائل فوٹو)
(فائل فوٹو)

ہفتہ کو وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگر ان صدارتی حکم ناموں میں ترامیم نا کی گئیں تو پارلیمان کے ایوان بالا سے انہیں منظور ہونے نہیں دیا جائے گا

نواز شریف حکومت کی اتحادی جماعت جمعیت علمائے اسلام (ف) کے قانون ساز اور سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے امور داخلہ کے سربراہ طلحہ محمود کا کہنا ہے کہ ملک میں دہشت گردی اور بدامنی کی روک تھام کے لیے سخت قوانین کا نفاذ ناگزیر ہے۔

مگر حال ہی میں حکومت کی طرف سے پارلیمان میں منظوری کے لیے پیش کردہ انسداد دہشت گردی سے متعلق آرڈینسز میں چند ایسی شقیں شامل ہیں جو کہ انسانی حقوق اور جمہوری اقدار کے منافی ہیں۔

ہفتہ کو وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگر ان صدارتی حکم ناموں میں ترامیم نا کی گئیں تو پارلیمان کے ایوان بالا سے انہیں منظور ہونے نہیں دیا جائے گا۔

’’اس میں ایسی خطرناک شقیں ہیں کہ اگر سیاسی طور پر اسے کسی کے خلاف استعمال کیا جائے تو وہ اپنی شہریت کھو بیٹھے گا۔ ہم کہتے ہیں کہ ایسی شقیں جن سے سیاسی بدلے لینے کی بو آتی ہے اس میں ترمیم کی جائے۔‘‘

حکومت کی طرف سے حال ہی میں قومی اسمبلی میں انسداد دہشت گردی ترمیمی بل، تحفظ پاکستان اور غیر قانونی طور پر رقوم کی منتقلی سے متعلق آرڈیننسز پیش کئے گئے تاہم ایوان زیریں میں شدید مخالفت کے بعد حکومت نے ان کی منظوری موخر کردی۔

قومی اسمبلی
قومی اسمبلی

قومی اسمبلی میں انسداد دہشت گردی ترمیمی بل کو اگرچہ بعد میں کثرت رائے سے منظور کرلیا گیا مگر اسے ابھی سینٹ میں پیس کرنا باقی ہے جہاں منظوری کے لیے حکومت کو اراکین کی مطلوبہ اکثریت حاصل نہیں۔

قومی اسمبلی میں حزب اختلاف کی دوسری بڑی جماعت پاکستان تحریک انصاف کے رکن عارف علوی کا کہنا تھا۔

’’آئین میں ہے کہ پبلک ڈس آڈر اور پاکستان کے خلاف جنگ کی وضاحت علیدہ علیحدہ ہوگی۔ مطاہروں کے دوران بس جلانا مختلف ہے پاکستان کی خود مختاری سے۔ کئی ایسی کارروائیاں میں نے کی ہیں کہ اس (آرٹینس) کے تحت میں سزا یافتہ کہہ لاؤں گا۔‘‘

اراکین پارلیمان کا کہنا ہے کہ خفیہ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو مشتبہ افراد پر گولی چلانے، ان کی تلاش کے لیے چھاپے مارنے اور طویل مدت کے لیے انہیں زیر حراست رکھنے سے متعلق طریقہ کار اور قواعد و ضوابط میں ابہام ان صدارتی حکم ناموں میں بدستور موجود ہے۔

تاہم وزیر مملکت برائے امور داخلہ بلیغ الرحمان کہنا تھا کہ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی میں اراکین کی طرف سے ان آرڈیننسز کی ان کے بقول صرف نوک پلک درست کرنے کی تجاویز پیش کی گئی تھی۔

’’ملک میں جو امن و امان کی صورتحال ہے اس میں سقم تھے انہیں دور کرنے کے لئے یہ آرڈیننسز متعارف کروائے گئے اور ان کے جلد نفاذ سے ہم سمجھتے ہیں کہ بدامنی پر قابو پا لیا جائے گا۔ ان کے آنے سے فورسز کے اختیارات اور دائرہ کار میں بھی بہتری آئے گی۔‘‘

قومی اسمبلی میں شدید مخالفت کے بعد حکومت کے قانون سازوں نے تحفظ پاکستان نامی صدارتی حکم نامے کی مزید تین ماہ تک توسع کی منظوری دے دی ہے۔
XS
SM
MD
LG