رسائی کے لنکس

گوادر سے کوئٹہ تک نئی ریلوے لائن بچھانے کا منصوبہ


فائل فوٹو
فائل فوٹو

عہدیدار نے بتایا کہ گوادر میں ریلوے اسٹیشن کے لیے اراضی خرید لی گئی ہے جب کہ تربت، خضدار، قلات، مستونگ اور بے سیمہ میں ریلوے اسٹیشنزقائم کرنے کےلیے اراضی خر یدنے کےلئے مالیاتی اخراجات کا تخمینہ لگا یا جارہا ہے۔

قدرتی وسائل سے مالا مال لیکن پسماندہ ترین صوبہ بلوچستان میں ذرائع آمد ورفت نہ صرف محدود ہیں بلکہ بنیادی ڈھانچے کی کم یابی کی وجہ سے بھی یہاں ایک علاقے سے دوسرے تک کا سفر خاصا دشوار گزار تصور کیا جاتا ہے۔

لیکن اب ساحلی شہر گوادر کو صوبائی دارالحکومت کوئٹہ سے ملانے کے لیے ریلوے لائن بچھانے کا منصوبہ بنایا گیا ہے جس کے قابل عمل ہونے سے متعلق جائزے پر کام شروع کر دیا گیا ہے۔

ریلوے حکام کے مطابق گوادر سے پنجگور، تربت، خضدار، قلات اور مستونگ تک نئی ریلوے لائن بچھانے کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔

بلوچستان میں قیام پاکستان سے پہلے کی بچھائی گئی ایک ریلوے لائن ہے جو کہ دالبدین سے کوئٹہ اور پھر زاہدان تک جاتی ہے لیکن یہ کئی سالوں سے قابل عمل نہیں ہے۔

ریلوے کے چیف انجینیئر بشارت وحید نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ نئی پٹڑی بچھانے کے لیے سات سال قبل بھی ایک جائزہ رپورٹ تیار کرنے کا کہا گیا تھا کہ لیکن اب پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کے تحت دوبارہ اس روٹ پر ریلوے لائن بچھانے کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔

انھوں نے بتایا کہ اس منصوبے کے تحت پہلا روٹ گوادر سے خضدار، قلات اور مستونگ، دوسرا روٹ گوادر، پنجگور، بے سیمہ، خضدار، جیکب آباد تک اور تیسرے روٹ کے تحت گوادر، تربت، خضدار، رتوڈیرو اور لاڑکانہ تک 939 کلو میٹر ریلوے کی نئی پٹڑی بچھانے کے لیے منصوبہ بندی شروع کرد ی گئی ہے۔

انھوں نے بتایا کہ گوادر میں ریلوے اسٹیشن کے لیے اراضی خرید لی گئی ہے جب کہ تربت، خضدار، قلات، مستونگ اور بے سیمہ میں ریلوے اسٹیشنزقائم کرنے کےلیے اراضی خر یدنے کےلئے مالیاتی اخراجات کا تخمینہ لگا یا جارہا ہے۔

کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے کالم نگار شہزاد بلوچ نے گوادر سے کوئٹہ کو ملانے کے اس منصوبے کو صوبے کے لیے ایک خوش آئند قدم قرار دیتے ہوئے کہا کہ اگر یہ قابل عمل ہو جاتا ہے تو اس مقامی لوگوں کے حالت زندگی خصوصاً معاشی حالت بہتر ہونے میں خاطر خواہ مدد ملے گی۔

"یہاں ریلوے نظام آئے گا تو ان کی قسمت بدلے گی، معاشی سرگرمیاں بہتر ہوں گی، روزگار کے مواقع ملیں گے، بلوچستان میں بے روزگاری ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔"

پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کا تخمینہ 46 ارب ڈالر لگایا گیا ہے اور اس کے تحت چین کے شہر کاشغر سے پاکستان کے شہر گوادر تک مواصلات، بنیادی ڈھانچے، توانائی کے منصوبوں اور صنعتوں کا جال بچھایا جانا ہے۔

بعض قوم پرست حلقے ان تحفظات کا اظہار کرتے رہے ہیں کہ اس منصوبے میں بلوچستان اور اس کے مقامی لوگوں کو ترجیح نہیں دی جارہی لیکن وفاقی حکومت کا کہنا ہے کہ اس منصوبے میں کسی بھی خاص علاقے کو فائدہ نہیں پہنچایا جا رہا بلکہ اس کے مکمل ہونے سے پورا ملک یکساں طور پر مستفید ہوگا۔

XS
SM
MD
LG