رسائی کے لنکس

پابندیوں کے باعث ایران کو آم کی برآمد میں مشکلات


پاکستانی آم کی چوتھی بڑی منڈی ایران ہے۔
پاکستانی آم کی چوتھی بڑی منڈی ایران ہے۔

پاکستان میں برآمد کنندگان نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اس سال ہزاروں ٹن آم ایران برآمد نہیں کیا جا سکے گا، جس سے ملک ایک کروڑ ڈالر مالیت کے زرِ مبادلہ سے محروم ہو سکتا ہے۔

پھلوں اور سبزیوں کے تاجروں کی نمائندہ تنظیم کے چیئرمین وحید احمد نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ایران کے متنازع جوہری پروگرام کی وجہ سے عائد کردہ بین الاقوامی تعزیرات کے خوف سے مقامی کمرشل بینک برآمد کنندگان کو ’ایکسپورٹ فارم‘ جاری کرنے سے گریزاں ہیں۔

’’ہمیں لگ رہا ہے کہ ایران میں پاکستانی آم کی 30 ہزار ٹن کی منڈی ہمارے ہاتھ سے نکل جائے گی، جو سات سالوں میں بنی ہے۔‘‘

اُنھوں نے بتایا کہ ایران میں پاکستان کا سندھڑی آم سب سے زیادہ پسند کیا جاتا ہے اور اس کی برآمد 25 مئی سے 25 جون کے درمیانی عرصے میں ممکن ہوتی ہے مگر نجی بینکوں کے عدم تعاون کی وجہ سے یہ موقع ہاتھ سے نکل چکا ہے۔

’’اب جولائی کے اواخر میں پنجاب کے سفید چونسہ کی فصل آئے گی، دیکھتے ہیں ہم اسے ایران بھیج سکیں گے یا نہیں۔‘‘

وحید احمد نے بتایا کہ مرکزی اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے اُنھیں مطلع کیا ہے کہ نجی بینکوں کو ایران کے ساتھ تجارت نا کرنے کے بارے میں کوئی ہدایات جاری نہیں کی گئی ہیں لیکن اس کے باوجود بینکوں کی ہچکچاہٹ اُن کی سمجھ سے باہر ہے۔

’’حکومت ہمیں ایک طرف کہتی ہے کہ برآمدات بڑھائیں، دوسری طرف جب ہم کوشش کرتے ہیں تو وہاں پر یہ مشکلات آڑے آ جاتی ہیں۔‘‘

اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان سے رواں سال صرف چھ ہزار ٹن کینوں ایران برآمد کیا جاسکا، جو اوسط برآمدات میں 90 فیصد کمی کو ظاہر کرتا ہے اور اس کی وجہ بھی نجی بینکوں کی خود ساختہ پالیسی ہے۔

امریکہ کے ساتھ تعلقات میں روایتی تذبذب اور حالیہ کشیدگی کے بعد پاکستان نے اقتصادی ترقی اور قومی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے اپنی توجہ علاقائی خاص طور پر قریبی ہمسایہ ملکوں سے تعاون کو وسعت دینے پر مرکوز کر رکھی ہے۔

حالیہ مہینوں میں ایران کے ساتھ توانائی خاص طور پر بجلی کے شعبے میں متعدد منصوبوں پر کام تیز کر دیا گیا ہے۔

پاک ایران گیس پائپ لائن پر عمل درآمد کے پختہ عزم کا اعادہ کرنے کے بعد پاکستان نے حال ہی میں ایران سے 1,000 میگا واٹ بجلی کی درآمد کے منصوبے کے ابتدائی مسودے پر بھی دستخط کر دیے ہیں۔

اس منصوبے کے تحت ایران کے جنوب مشرقی شہر زاہدان سے کوئٹہ تک بجلی کی ترسیل کے لیے نئی ٹرانسمشن لائن بچھائی جائے گی، جس پر آنے والی کل لاگت کا 70 فیصد ایران جب کہ باقی پاکستان کو ادا کرنا ہوگا۔

لیکن تہران کے متنازع جوہری پروگرام کی وجہ سے امریکہ اور ایران کے تعلقات مسلسل تناؤ کا شکار ہیں اور ناقدین کا کہنا ہے کہ ان حالات میں پاکستان اور ایران کے درمیان مجوزہ منصوبوں کو عملی جامہ پہنانا بہرحال ایک چیلنج ہوگا۔

XS
SM
MD
LG