رسائی کے لنکس

افغان مہاجرین کی ملک بدری کی اطلاعات کی تردید


افغان پناہ گزین (فائل فوٹو)
افغان پناہ گزین (فائل فوٹو)

اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ پاکستان میں درج شدہ افغان مہاجرین کی تعداد 17 لاکھ ہے جبکہ مقامی حکام کے مطابق مجموعی تعداد تیس لاکھ سے بھی زیادہ ہے۔

پاکستان نےلاکھوں افغان پناہ گزینوں کوملک سے بے دخل کرنے کی اطلاعات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ان افغانوں کی باوقار اور رضاکارانہ وطن واپسی کی پالیسی پرقائم ہے۔

برطانوی اخبار نے اپنی ایک حالیہ رپورٹ میں دعویٰ کیا تھا کہ تین دہائیوں تک مہمان داری کرنے کے بعد پاکستان نے افغان مہاجرین کو افغانستان واپس بھیجنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔

لیکن وزیر خارجہ حنا ربانی کھر نے منگل کو اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ افغان مہاجرین پر پاکستان کی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔

’’مہاجرین سے متعلق (پاکستان کی) جو پالیسی ہے واضح ہے اور وہ تو وہی پالیسی ہے جو ہے۔ ہم نے ہمیشہ کہا کہ واپسی باوقاراور رضاکارانہ اندازمیں ہونی چاہیے۔‘‘

پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کے ادارے ’یواین ایچ سی آر‘ کی ترجمان دنیا اسلم نے بھی وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا ہے کہ افغان مہاجرین کو زبردستی وطن بھیجنے کی اطلاعات درست نہیں ہیں۔

’’حکومت نے ہمیں یہ یقین دہانی کرائی ہے کہ کسی بھی تسلیم شدہ افغان پناہ گزین کو پاکستان سے ملک بدر نہیں کیا جائے گا۔ شاید اس چیز کا اطلاق اُن لوگوں پر ہوجو پاکستان میں غیر قانونی طور پر رہ رہے ہیں۔‘‘

اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ پاکستان میں درج شدہ افغان مہاجرین کی تعداد 17 لاکھ ہے جبکہ مقامی حکام کے مطابق مجموعی تعداد تیس لاکھ سے بھی زیادہ ہے۔

ان افغانوں کی اکثریت صوبہ خیبر پختون خواہ میں مقیم ہے۔ صوبائی حکام کے بقول اُن کے ہاں اس وقت دس لاکھ افغان غیر قانونی طور پر مقیم ہیں جو نہ تو پناہ گزین ہیں اور نہ ہی ان کے پاس پاکستان میں رہائش کا اجازت نامہ ہے۔

صوبے میں حکمران جماعت عوامی نیشنل پارٹی کے ایک مرکزی رہنما سینیٹر افراسیاب خٹک نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے موجودہ اقتصادی حالات کے تناظر میں افغان پناہ گزین بلاشبہ قومی معیشت پر بوجھ ہیں مگر ان کی ملک بدری کی نا تو وہ حمایت کرتے ہیں اور نہ کوئی ایسا فیصلہ ان کے علم میں ہے۔

’’اس مسئلے کا حل دونوں ملکوں کو مل بیٹھ کرنکالنا ہوگا کیونکہ زبردستی بے دخلی سے تعلقات پر منفی اثرات مرتب ہوں گے اور خدشہ ہے کہ یہ افغان دوبارہ پاکستان میں داخل ہونے کی کوشش کریں۔ اس صورت حال سے بچنے کے لیے ایک دیرپا حل تلاش کرنا ہوگا۔‘‘

XS
SM
MD
LG