رسائی کے لنکس

افغان سفارت کار کی وزارت خارجہ طلبی


پاکستانی وزارت خارجہ کے مطابق افغان ناظم الامور کو بتایا گیا کہ تحقیقات سے یہ معلوم ہوا ہے کہ اس حملے کے پیچھے عناصر افغان سرزمین اور افغانستان کا ٹیلی کمیونیکیشن نیٹ ورک استعمال کر رہے تھے۔

پاکستان کی وزارت خارجہ نے افغانستان کے سفارت خانے کے ناظم الامور کو طلب کر کے چارسدہ کی باچا خان یونیورسٹی پر حملے میں افغان سرزمین کے استعمال ہونے پر تشویش کا اظہار کیا۔

وزارت خارجہ سے منگل کو جاری ہونے والے بیان کے مطابق ناظم الامور سید عبدالناصر یوسفی کے ذریعے افغان حکومت سے کہا گیا کہ اس بدترین دہشت گردی میں ملوث عناصر کو جلد از جلد انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لیے کابل، اسلام آباد سے مکمل تعاون کرے۔

بیان کے مطابق افغان سفارت کار کو بتایا گیا کہ تحقیقات سے یہ معلوم ہوا ہے کہ اس حملے کے پیچھے عناصر افغان سرزمین اور افغانستان کا ٹیلی کمیونیکیشن نیٹ ورک استعمال کر رہے تھے۔

پاکستانی وزارت خارجہ کے مطابق اس حوالے سے متعلقہ تفصیلات پہلے سے افغان حکومت کو فراہم کی جا چکی ہیں۔

گزشتہ ہفتے پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے افغان صدر اشرف غنی، چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ اور افغانستان میں تعینات بین الاقوامی افواج کے کمانڈر جنرل جان کیمبل سے ٹیلی فون پر رابطہ کر کے کہا تھا کہ وہ باچا خان یونیورسٹی پر حملے میں ملوث عناصر کے خلاف کارروائی میں پاکستان کی مدد کریں۔

پاکستان کے سابق سفارت کار اور افغان اُمور پر نظر رکھنے والے تجزیہ کار رستم شاہ مہمند نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ افغانستان کے جن علاقوں میں پاکستانی شدت پسند سرگرم ہیں وہاں عملی طور پر افغان حکومت کی عمل داری نہیں ہے۔

’’یہ تو علامتی مظاہرہ ہے، پاکستان کو معلوم ہے جہاں سے یہ لوگ آپریٹ کرتے ہیں وہاں پر افغان حکومت کا کوئی کنٹرول یا رٹ نہیں ہے۔ تو ان سے یہ توقع رکھنا کہ وہ ان لوگوں کو جو ایسے حملوں میں ملوث ہیں پکڑ لیں گے یہ ممکن نہیں، اس کا کوئی نتیجہ نکلنے والا نہیں ہے لیکن بہرحال پاکستانی حکومت کا احتجاج اپنی جگہ اصولی طور پر صحیح ہے۔‘‘

اُنھوں نے کہا کہ پاکستان میں حقیقی امن اُسی صورت ممکن ہے جب پڑوسی ملک افغانستان میں امن ہو۔

’’جب تک افغانستان میں تنازع ہے، بغاوت ہے تو اس کے منفی اثرات پاکستان کی سرحد پر پڑتے رہیں گے چاہے حکومتوں کے تعلقات کتنے ہی خوشگوار کیوں نہ ہوں۔‘‘

گزشتہ ہفتے باچا خان یونیورسٹی پر دہشت گردوں کے حملے میں 21 افراد ہلاک ہو گئے تھے جن میں سے اکثریت طالب علموں کی تھی۔

حملے کے بعد کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے دھڑے ’حلقہ درہ آدم خیل‘ کے کمانڈر عمر منصور نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔

واضح رہے کہ دسمبر 2014ء میں پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر حملے کی ذمہ داری بھی اسی دھڑے نے قبول کی تھی۔

پاکستانی فوج کے ترجمان لفٹیننٹ جنرل عاصم سلیم باجوہ نے حملے کے بعد ایک نیوز کانفرنس میں بتایا تھا کہ تحقیقات سے یہ معلوم ہوا ہے کہ حملہ آوروں کو افغانستان ہی میں تیار کر کے پاکستان بھیجا گیا اور طالبان کا ایک کارندہ ان کو افغان سرزمین سے ہی کنٹرول کر رہا تھا۔

لفٹیننٹ جنرل عاصم سلیم باجوہ کے مطابق حملے کے پانچ سہولت کار پکڑے جا چکے ہیں جن سے تفتیش جاری ہے۔

پاکستان کا دعویٰ ہے کہ ملک میں دہشت گردوں کے خلاف جاری کارروائیوں کے باعث کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ ملا فضل اللہ سمیت کئی کمانڈر سرحد پار افغانستان روپوش ہو گئے، جہاں سے وہ پاکستانی سرزمین پر حملوں کی منصوبہ بندی کرتے ہیں۔

اگرچہ پاکستان اور افغانستان کے تعلقات میں بہتری آئی ہے لیکن دہشت گردوں کی سرحد کے آر پار کارروائیاں دونوں حکومتوں کے درمیان تناؤ کا سبب بنتی رہی ہیں۔

چند روز قبل ہی پاکستانی وزیراعظم نواز شریف نے ایک بیان میں کہا تھا کہ پاکستان اور افغانستان نے ایک دوسرے کے خلاف اپنی سرزمین استعمال نا ہونے دینے کا عہد کر رکھا ہے لیکن اُن کے بقول اب بھی پاکستان مخالف دہشت گرد افغان سرزمین استعمال کر رہے ہیں۔

XS
SM
MD
LG