رسائی کے لنکس

نواز شریف کا دورہ ’مضبوط‘ پاک امریکہ تعلقات کا آئینہ دار: محکمہٴخارجہ


بقول ترجمان، ’دورے میں ایک اچھا موقع میسر آیا کہ مجموعی تعلقات کے بارے میں گفتگو کی جائے اور اِنھیں مزید مضبوط کیا جائے۔ صرف سکیورٹی کے امور ہی نہیں، وسیع تر امور پر بات ہوئی‘

امریکی محکمہٴخارجہ کےمعاون ترجمان نے کہا ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف کا دورہ ’مجموعی طور پر، پاکستان کے ساتھ ہمارے مضبوط اور فروغ پاتے ہوئے تعلقات کا آئینہ دار ہے، جس سے وسیع تر معاملات پر تعاون کو مضبوط کرنے کا موقع میسر آیا‘۔

مارک ٹونر نے یہ بات جمعے کو اخباری بریفنگ کے دوران ایک سوال پر کہی۔

اُنھوں نے کہا کہ وزیر اعظم نواز شریف اور امریکی وزیر خارجہ جان کیری کے درمیان ہونے والی ملاقات ’بہت ہی کامیاب‘ رہی۔

اُنھوں نے بتایا کہ ’سب سے پہلا اور اولیت کا حامل معاملہ سکیورٹی کا تھا۔ تاہم، باہمی مفاد کے بہت سے معاملات تھے جن میں معاشی افزائش، تجارت، سرمایہ کاری، شفاف توانائی، نیوکلیئر سکیورٹی، موسمیاتی تبدیلی اور علاقائی استحکام کے امور شامل ہیں‘۔

بقول اُن کے، ’دورے میں ایک اچھا موقع میسر آیا کہ مجموعی تعلقات کے بارے میں گفتگو کی جائے اور اِنھیں مزید مضبوط کیا جائے۔ صرف سکیورٹی کے امور ہی نہیں، وسیع تر امور پر بات ہوئی‘۔

جنوبی ایشیا سے متعلق ایک سوال پر، مارک ٹونر نے کہا کہ ’ہم اس بارے میں صاف گوئی سے کہتے آئے ہیں کہ بھارت اور پاکستان کو مکالمے کی ضرورت ہے‘۔

اُنھوں نے کہا کہ ’ضرورت اس بات کی ہے کہ وہ (دونوں ملک) اپنی تشویش کے بارے میں ایک دوسرے سے گفتگو کریں۔۔ سکیورٹی کے بارے میں دونوں ہی کو تشویش ہے، اس لیے اُنھیں زیادہ رابطہ رکھنے کی ضرورت ہے۔۔ کیونکہ، تمام خطے کی سلامتی کے لیے دونوں ملکوں کے مابین بہتر مکالمہ، بہتر ڈائلاگ، زیادہ تعاون اہمیت کا حامل ہے‘۔

مارک ٹونر نے کہا کہ ’پاکستان بُری طرح سے دہشت گردی کا شکار رہا ہے، اور ماضی قریب میں ملک میں انسداد دہشت گردی کے حوالے سے اقدامات کیے گئے ہیں‘۔ بقول ترجمان، ’ہم چاہتے ہیں کہ اِن اقدامات کو وسعت دی جائے‘۔

ترجمان نے کہا کہ ’یہ ایک پیچیدہ صورت حال ہے۔ ایک جانب افغانستان اور طالبان کی موجودگی ہے۔ دوسری جانب بھارت کے ساتھ تناؤ کا معاملہ ہے، جس صورت حال کو حل کرنے کی ضرورت ہے‘۔

ترجمان نے پاکستان و بھارت کے درمیان مکالمے کی ضرورت پر زور دیا۔ تاہم، ترجمان نے کہا کہ ’باعثِ تشویش معاملات کو حل کرنے کے لیے، دونوں ملکوں کو خود آگے بڑھنا ہوگا‘۔

XS
SM
MD
LG