رسائی کے لنکس

بن لادن کی پاکستان میں ہلاکت پاک امریکہ تعلقات میں تناؤ کی وجہ


امریکی نائب صدر پاکستانی قیادت کے ہمراہ
امریکی نائب صدر پاکستانی قیادت کے ہمراہ

ایبٹ آباد میں بن لادن کے خفیہ ٹھکانے کی دریافت کے بعد پاکستان اور امریکہ کے درمیان کشیدہ تعلقات میں مزید تناؤ پیدا ہوا ہے۔ جنوبی ایشیا کے بعض تجزیہ کار کہتے ہیں کہ گذشتہ ہفتے بن لادن کی ہلاکت کے بعد، اگرچہ ان دو اتحادیوں کے درمیان اختلافات کھل کر سامنے آ گئے ہیں، لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ اس واقعے کے نتیجے میں دونوں ملکوں کے طویل المدت تعلقات زیادہ مضبو ط ہو جائیں۔

بن لادن کا کمپاؤنڈ اسلام آباد سے نسبتاً بہت زیادہ فاصلے پر نہیں تھا۔ اس لیے یہ سوالات پیدا ہو رہے ہیں کہ کیا پاکستان کی فوج اور سیکورٹی کے عہدے داروں کو علم تھا کہ وہ شخص جس کی ساری دنیا کو تلاش ہے برسوں سے ملک کے دارالحکومت سے اتنے کم فاصلے پر رہتا رہا ہے۔

پاکستان کے وزیرِاعظم یوسف رضا گیلانی نے سختی سے اس الزام کو رد کر دیا کہ پاکستانی حکام اور القاعدہ کے درمیان کسی قسم کے تعلقات تھے۔ انھوں نے کہا کہ ’’ٹھیک ہے، یہ ہماری انٹیلی جنس کی ناکامی ہے۔ یہ صرف ہماری انٹیلی جنس کی نہیں بلکہ دنیا کی ساری انٹیلی جنس ایجنسیوں کی ناکامی ہے‘‘۔

اگرچہ امریکی عہدے داروں نے یہ نہیں کہا ہے کہ پاکستانی عہدے دار بن لادن کی موجودگی کے بارے میں جانتے تھے۔ صدر اوباما نے کہا ہے کہ ان کے خیال میں پاکستان کے اندر اس دہشت گرد لیڈر کی مدد کا نیٹ ورک موجود تھا۔

جنوبی ایشیا کے بعض ماہرین کہتے ہیں کہ اسلام آباد پر دباؤ بڑھانے کے لیے یہ بڑا اچھا وقت ہے۔ امریکین انٹرپرائز انسٹیٹویٹ کے سیڈٓآنند ڈہیومی کہتے ہیں کہ بن لادن کی موت سے پاکستان پر دباؤ ڈالنے کا موقع ملا ہے ۔ ہمیں چاہیئے کہ ہم پاکستان سے کہیں کہ وہ افغانستان کے ساتھ سرحدی علاقے میں عسکریت پسندوں کی ٹھکانے ختم کرنے کے لیے زیادہ کوشش کرے۔ ’’میرے خیال میں یہ معاملہ اتنا سنگین ہے اور بین الاقوامی میڈیا کی توجہ اتنی زیادہ ہے کہ ہمارے لیے یہ موقع ہے کہ ہم ان سے زیادہ اہم چیزوں کا مطالبہ کریں جو ہم دو ایک ہفتے پہلے نہیں کر سکتے تھے۔‘‘

ڈہیومی کہتے ہیں کہ امریکہ کو پاکستان سے جن ٹھوس اقدامات کا مطالبہ کرنا چاہیئے ان میں بن لادن کے نائب ایمن الظواہری اورافغان طالبان لیڈر ملا عمر کو تلاش کرنا شامل ہیں۔ ان دونوں کے بارے میں پتہ نہیں کہ وہ کہاں چھپے ہوئے ہیں، لیکن بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ وہ پاکستان میں ہیں۔

شجاع نواز
شجاع نواز

شجاع نوازاٹلانٹک کونسل میں جنوبی ایشیا سینٹر کے ڈائریکٹرہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ بن لادن کی موت سے امریکہ اور پاکستان کے درمیان تعلقات کو بہتر بنانےکا شاندار موقع ہاتھ آیا ہے۔ ’’پاکستانیوں کے لیے یہ موقع ہے تبدیلی شروع کرنے کا۔ انھیں گہرا تجزیہ کرنا چاہیئے کہ ان کے دور رس قومی مفاد میں کیا چیز ہے علاقے میں کیا ضروری اقدامات ہیں جو انہیں افغانستان کے قریب لے آئیں گے جن سے بھارت کے ساتھ دشمنی کم کرنے میں مدد ملے گی اور امریکہ کے ساتھ زیادہ شفاف بنیاد پر تعلقات قائم ہو سکیں گے‘‘۔

امریکہ نے حالیہ برسوں کے دوران پاکستان کو اربوں ڈالر کی امداد دی ہے اور کانگریس کے بعض ارکان کا کہنا ہے کہ وقت آگیا ہے کہ امریکہ اس تعلق پر نظر ثانی کرے۔ بعض دوسرے لوگوں کا خیال ہے کہ امداد جاری رہنی چاہیئے تا کہ انسداد ِ دہشت گردی میں زیادہ تعاون کی حوصلہ افزائی ہو۔
امریکہ کے سابق کانگریس مین پیٹر ہوایکسٹرا کہتے ہیں کہ خارجہ پالیسی کی ترجیحات کو آگے بڑھانے کے لیے دونوں ملکوں کو ایک دوسرے کی ضرورت ہے۔ ’’ہمیں اس تعلق کی ضرورت ہے۔ ہمیں انتہا پسند جہاد ازم اور القاعدہ کے خلاف جنگ کے لیے اور افغانستان میں اپنی کارروائیوں کو جاری رکھنے کے لیے اپنی کوشش جاری رکھنی چاہیئے‘‘۔

اگرچہ واشنگٹن اور اسلام آباد میں تیز و تند بیانات دیے جا رہے ہیں، لیکن وزیرِ اعظم گیلانی نے واضح کر دیا ہے کہ امریکہ کے ساتھ تعلق جاری رہے گا۔ ’’امریکہ کے ساتھ ہمارے تعلقات کے بارے میں اندیشے ظاہر کیے جا رہے ہیں۔ اس بارے میں تشویش کو رفع کرنا چاہتا ہوں۔ پاکستان کے لیے امریکہ کے ساتھ تعلقات بہت اہم ہیں۔ ہمارے درمیان پائیدار شراکت داری قائم ہے جو ہمارے خیال میں ہمارے مشترکہ مفاد میں ہے‘‘۔

گذشتہ سال بھارت کے دورے کے بعد، صدر اوباما نے وعدہ کیا تھا کہ وہ 2011 میں پاکستان کا دورہ کریں گے۔

XS
SM
MD
LG