رسائی کے لنکس

مظلوم پاکستانی خواتین کی ترقی کا پانچ سالہ منصوبہ


صوبائی وزیر توقیر فاطمہ بھٹو پنجاب کی خاتون وزیر کے ہمراہ
صوبائی وزیر توقیر فاطمہ بھٹو پنجاب کی خاتون وزیر کے ہمراہ

بین الاقوامی ترقی کے امریکی ادارے یوایس ایڈ نے پاکستان میں صنفی توازن کے فروغ کے لیے چار کروڑ ڈالر کا ایک منصوبہ شروع کیا ہے جس کا مقصد آئندہ پانچ سالوں کے دوران ظلم اور زیادتی کا شکار خواتین کی زندگیوں میں ایک واضح مثبت تبدیلی لانا ہے۔

یہ پروگرام امریکہ کی طرف سے پاکستان کو کیری لوگر قانون کے تحت ملنے والی ساڑھے سات ارب ڈالر امداد کا حصہ ہے اور اس کے بنیادی طور پر چار جز ہوں گے۔ ان میں عورتوں کی انصاف کے اداروں تک رسائی کو یقینی بنایا، انہیں روزگار کے مواقع دے کر اقتصادی اور سماجی لحاظ سے با اختیار بنانا ، ان کے خلاف ہر طرح کے ظلم اور تشدد کو روکنا اور ایسے تمام اداروں کی مالی اور تکنیکی استعطاعت میں اضافہ کرنا ہے جو خواتین کی ترقی کے لیے کام کر رہے ہیں۔

حقوق نسواں کے لیے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم عورت فاؤنڈیشن کے ایک عہدیدار نعیم مرزا نے وائس آف امریکہ سے انٹرویو میں کہا کہ ان کے ادارے اور عالمی غیر سرکاری تنظیم ایشیا فاؤنڈیشن کو یہ ذمہ داری سونپی گئی ہے کہ وہ اس پروگرام کے نفاذ کے لیے پاکستان کے سرکاری اور غیر سرکاری اداروں میں فنڈز تقسیم کریں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ یہ امداد صحیح طریقے سے استعمال ہو اور اس کے فوائد مستحق عورتوں تک پہنچیں۔

انہوں نے بتایا کہ اگلے پانچ سالوں میں مختلف پروگراموں کے مد میں بیس لاکھ سے لے کر دو کروڑ روپے تک کی گرانٹس میڈیا کے اداروں، بار ایسوسی ایشنوں، سول سوسائٹی اور سرکاری اداروں میں تقسیم کی جائیں گی لیکن ان کے مطابق شفافیت کو ہر طریقے سے یقینی بنایا جایا گا اور اس بات کی بھی مکمل جانچ پڑتال کی جائے گی کہ جن اداروں کو پیسے دیے جارہے ہیں وہ مطلوبہ نتائج برآمد کرنے کی اہلیت رکھتے ہوں۔

نعیم مرزا نے اس اعتماد کا اظہارکیا کہ امریکی ادارے کے اس منصوبے کے نتائج صرف سیمینار اور کانفرنسوں تک محدود نہیں ہوں گے بلکہ نچلی سطح پر ظلم اور مشکلات کا شکار عورتوں تک اس کے ثمرات پہنچیں گے۔’’ اس امداد سے شروع کیے جا نے والے پروگرام زچگی کے دوران مناسب طبّی امداد نہ ملنے سے ماں اور بچے کی ہلاکت جیسے مسائل کا بھی احاطہ کریں گے‘‘۔

حکمران پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والی سندھ کی وزیر برائے ترقی خواتین توقیر فاطمہ بھٹو نے ایک انٹرویو میں اس پروگرام کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان کی وزارت بھی اس میں سرگرم کردار ادا کرے گی اور یہ کہ اس پروگرام سے ان کوششوں کو تقویت ملے گی جو پاکستان میں سرکاری اور نجی شعبہ مل کر مظلوم خواتین کی ترقی کے لیا کر رہا ہے۔

پاکستان میں عورتوں پر تشدد کے واقعات کے بارے میں درست اعداد و شمار اگرچہ دستیاب نہیں لیکن غیر سرکاری جائزے کے مطابق گذشتہ سالوں کے دوران اس کی شرح میں کمی نہیں بلکہ اضافہ ہوا ہے اور ماہرین کے مطابق اس کی بنیادی وجوہات میں امتیازی قوانین ، بعض سماجی اور ثقافتی رسومات ، قبائلی اور جاگیر دارانہ نظام ، خواتین میں تعلیم کی کمی اور حکومتوں کی سطح پر ان مسائل کے حال کے لیے سیاسی عزم کی کمزوری ہے۔

XS
SM
MD
LG