رسائی کے لنکس

ٹارگٹ کلنگ کے واقعات کی تحقیقات کے لیے کمیٹی کا قیام


ٹارگٹ کلنگ کے واقعات کی تحقیقات کے لیے کمیٹی کا قیام
ٹارگٹ کلنگ کے واقعات کی تحقیقات کے لیے کمیٹی کا قیام

وفاقی حکومت نے انٹیلی جنس ایجنسیوں اور پولیس کے حکام پر مشتمل ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی تشکیل دی ہے جو اگلے دو ہفتوں کے اندر کراچی میں سیاسی بنیادوں پر ہونے والے قتل یا ٹارگٹ کلنگ کے واقعات کی تحقیقات کرکے اس کے ذمے داران اور ان کے محرکات کے بارے میں اپنی رپورٹ پیش کرے گی۔

پیرکے روز اسلام آباد میں ایک اہم اجلاس کی صدارت کے بعد صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے وزیرداخلہ رحمن ملک نے کہا کہ ٹارگٹ کلنگ کے واقعات ملک کے خلاف ایک منظم سازش کی کڑی دکھائی دیتے ہیں جس میں وہ عناصر ملوث ہیں جو ملک کو غیر مستحکم کرنا چاہتے ہیں تاہم وزیرداخلہ نے ان عناصر کے حوالے سے مزید وضاحت نہیں کی۔

ان کا کہنا تھا کہ ٹارگٹ کلنگ کے واقعات کو روکنے کے لیے ایک مربوط منصوبہ تشکیل دیا گیا ہے جس کے تحت کراچی میں پولیس اور رینجرز مل کر مختلف علاقوں کی گشت سمیت دوسری کارروائی کریں گے جب کہ ان تمام علاقوں کی سکیورٹی اہلکارسادہ کپڑوں میں ملبوس ہو کر کڑی نگرانی کریں گے جہاں سیاسی بنیادوں پر قتل کی واردات کا امکان ہو۔

رحمن ملک کے مطابق ان علاقوں میں ملیر،شریف آباد، لانڈھی،اورنگی،لیاقت آباد،گلشن اقبال،کورنگی، گلبرگ ،بلدیہ اور دوسرے علاقے شامل ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے ٹارگٹ کلنگ کو روکنے اور اس میں ملوث پائے جانے والوں کے خلاف انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت سخت ترین کارروائی کا عزم کر رکھا ہے۔

وزیر داخلہ نے بتایا کہ مذکورہ کمیٹی کراچی میں ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں ہلاک ہونے والے ہر ایک شخص کے کوائف اکھٹے کرے گی جن میں مرنے والے کی سیاسی یا کسی دوسری وابستگی بھی درج ہوگی اور یوں ہرایک واقعے کی جانچ پڑتال ہوگی۔

انھوں نے گذشتہ ہفتے کراچی میں عاشورہ کے جلوس کے دوران پیش آنے والے واقعے کی تحقیقات جاری ہیں اور قوی امکان اس بات کا ہے کہ دھماکا خودکش نہیں تھا تاہم ان کے مطابق اس کی حتمی رپورٹ جلد سامنے آجائے گی۔

خیال رہے کہ ماتمی جلوس میں بم دھماکے کے بعد حکام نے اسے خودکش حملہ قرار دیا تھا اور اب ایک ہفتہ گزرجانے کے بعد بھی دھماکے کی صحیح
نوعیت کا تعین نہ کیے جانے پر حکومت کے سکیورٹی نظام پر تنقید کی جارہی ہے۔

وائس آف امریکہ سے انٹرویو میں سابق سفیر اور تجزیہ نگار رستم شاہ مہمند نے کہا کہ پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتوں کے درمیان محاذ آرائی کے باعث ملکی ادارے کمزوری کا شکار ہیں جس کے نتیجے میں امن وامان کی صورتحال بگڑ رہی ہے۔ان کے مطابق یہ اداروں کی کمزوری ہی کی ایک مثال ہے کہ اب تک کراچی بم دھماکے کی نوعیت کا حتمی تعین نہیں ہوسکا۔

دوسری طرف رحمن ملک کا کہنا ہے کہ وہ تفتیشی اداروں کی حتمی رپورٹ سے پہلے کوئی قیاس آرائی نہیں کرنا چاہتے تاہم واقعے کے ذمے داران کے حوالے سے ان کا کہناہے کہ یہ بات مدنظر رکھی جانی چاہیے کہ پاکستان کے دشمن بہت زیادہ ہیں اور اس سلسلے میں مغربی سرحد سے ہونی والی جارحیت یا بھارتی خفیہ ادارے کو خارج ازامکان قرار نہیں دیا جاسکتا۔

مبصرین اور اپوزیشن رہنماء بشمول مسلم لیگ ق کے سیکریٹری جنرل مشاہد حسین سید مطالبہ کررہے ہیں کہ سانحہ کراچی کے بارے میں سپریم کورٹ ایک شفاف عدالتی تحقیق کرائے تاکہ ذمے داران کو بے نقاب کیا جاسکے۔

XS
SM
MD
LG