رسائی کے لنکس

کراچی: پرتشدد واقعات میں 33 افراد ہلاک


کراچی: پرتشدد واقعات میں 33 افراد ہلاک
کراچی: پرتشدد واقعات میں 33 افراد ہلاک

حقوق انسانی کی تنظیم ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) نے کراچی کی صورت حال پر انتہائی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ رواں سال کے پہلے سات ماہ کے دوران 800 سے زائد افراد مارے گئے۔ حال ہی میں شائع کی گئی اپنی عبوری رپورٹ میں تنظیم نے تشدد کی لہر کا ذمہ دار کراچی کی بڑی سیاسی جماعتوں کو ٹھہرایا ہے جب کہ اس کے مطابق جرائم پیشہ عناصر بھی بدامنی کا ناجائز فایدہ اُٹھا رہے ہیں۔

پاکستان کے سب سے بڑے شہر اور اقتصادی سرگرمیوں کے مرکز کراچی میں حکام نے بتایا ہے کہ خونریز بدامنی کی تازہ لہر میں گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران کم از کم 33 افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔

کراچی کی تھوک مارکیٹ کے سب سے بڑے مرکز کہلانے والے علاقے اولڈ سٹی ایریا کے تاجروں نے علاقہ میں قتل و غارت گری کے بڑھتے واقعات کے خلاف جمعرات کو احتجاجاً کاروبار بند رکھا ۔ یہ علاقہ کراچی کی کاروباری سرگرمیوں کا گڑھ سمجھا جاتا ہے جہاں جمعرات کو 80 سے زیادہ تجارتی مراکز مکمل طور پر بند رہنے سے یہاں سے کراچی اور ملک کے دیگر علاقوں کو سامان کی فراہمی بھی معطل رہی ۔

گذشتہ روز اس علاقہ میں نامعلوم افراد کی فائرنگ سے دو تاجر ہلاک ہوگئے تھے ۔ فائرنگ سے لگ بھگ آٹھ افراد زخمی بھی ہوئے ۔ کراچی تاجر اتحاد کے صدر عتیق میر نے وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ بدامنی کے خلاف یہ صرف ایک علاقہ کے تاجروں کا احتجاج ہے اگر حالات نہ سدھرے تو اس احتجاج میں پورے شہر کے تاجر شامل ہوجائیں گے۔ ان کے کہنا ہے کہ جرائم پیشہ عناصر اس قدر مضبوط ہیں کہ ان کے پاس وہ تمام اسلحہ موجود ہے جو فوجیوں کے پاس ہوتا ہے اور لگتا ہے کہ حکومت ان کے سامنے بے بس ہوگئی ہے ۔

کراچی میں تاجر برادری ایک طرف مسلسل بدامنی سے متاثر ہے تو دوسری طرف بھتہ خوری کے بڑھتے واقعات نے بھی انھیں مزید مشکل میں ڈال دیا ہے ۔

صدیق میمن کراچی میں580 بازاروں پر مشتمل تاجر ایکشن کمیٹی کے صدر ہیں ۔ انھوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ بھتہ مافیا کی جانب سے یومیہ پانچ کروڑ روپے بھتہ طلب کیا جارہا ہے اور نہ دینے پر سنگین نتائج کی دھمکیاں دی جاتی ہیں جب کہ تاجروں کے لیے حکومت کی جانب سے کوئی حفاظتی اقدامات نہیں کیے گئے ہیں ۔ انھوں نے بتایا کہ کراچی کے تاجروں نے عید کے موقع پر عید بازاروں میں ڈیڑھ سو ارب روپے کی سرمایہ کاری کی ہے اور اگر حالات اسی ڈگر پر چلتے رہے تو یہ سارا سرمایہ ڈوب جائے گا۔ انھوں نے بتایا کہ تاجروں نے بازاروں کی حفاظت کے لیے پانچ سو افراد پر مشتمل ایک نجی سکیورٹی فورس تشکیل دی ہے لیکن یہ ناکافی ہے۔تاجروں کا کہنا ہے کہ حکومت مستقل امن کے قیام کے لیے عملی اقدامات کرے تا کہ تاجروں کے ساتھ شہری بھی سکون کا سانس لیں۔

تشدد کے بیشتر واقعات لیاری کے علاقے اور اس کے گرد و نواح میں پیش آئے جہاں بھتہ خور اور جرائم پیشہ عناصر کے متعدد گروہ سرگرم ہیں۔

بدھ کو شروع ہونے والے اس سلسلے کے دوران نامعلوم مسلح افراد نے لیاری ہی میں حکمران پیپلز پارٹی کے سابق رکن قومی اسمبلی واجا احمد کریم داد کو بھی گولیاں مار کر ہلاک کر دیا تھا۔پولیس کا کہنا ہے کہ پر تشدد واقعات کی تحقیقات جاری ہیں تاہم بعض حکام انھیں لیاری میں سرگرم مخالف گروہوں کے درمیان لڑائی کا شاخسانہ قرار دے رہے ہیں۔

لیکن صوبہ سندھ کے وزیر داخلہ منظور وسان نے بدھ کی شام ذارئع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو میں کہا کہ ”کچھ قوتیں اور عناصر“ پیپلز پارٹی کی حکومت کو ناکام بنانے کی سازشیں کر رہے ہیں تاہم اُنھوں نے مزید وضاحت نہیں کی۔

منظور وسان
منظور وسان

منظور وسان کا کہنا تھا کہ صوبائی حکومت حالات پر قابو پانے کے لیے ہرممکن کوششیں کر رہی ہے۔

سندھ پولیس کے سربراہ واجد درانی نے کراچی میں اسلحہ کی بھرمار کو شہر میں امن و امان کی خراب صورت حال کی ایک بڑی وجہ قرار دیا ہے۔ ’’اسلحہ جس دن اس شہر سے نکال دیا جائے تو پھر امن ہو جائے گا۔‘‘

اُنھوں نے کہا کہ صرف قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کوشش سے شہر کو اسلحے سے پاک کرنا ممکن نہیں اور اس مقصد کے لیے سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کو آگے آکر اپیل کرنا ہوگی۔

دوسری طرف پرتشدد واقعات کا شکار ہونے والے افراد کے لواحقین نے پولیس اور ہسپتال انتظامیہ کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ اُنھیں لاشیں وصول کرنے میں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں مقتولین کے لواحقین نے بتایا کہ اُن کے عزیز و اقارب اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داروں کی ادائیگی کے سلسلے میں گھر سے نکلے تھے اور کئی گھنٹے لاپتا رہنے کے بعد اُن کی لاشیں شہر کے مختلف علاقوں سے ملیں۔

ایک کروڑ 80 لاکھ سے زائد آبادی والے شہر میں بدامنی کے واقعات نئے نہیں اور صرف جولائی کے مہینے میں یہاں سیاسی و لسانی بنیادوں پر ہونے والے پرتشدد واقعات میں کم ازکم 300 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔

حقوق انسانی کی تنظیم ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) نے کراچی کی صورت حال پر انتہائی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ رواں سال کے پہلے سات ماہ کے دوران 800 سے زائد افراد مارے گئے۔ حال ہی میں شائع کی گئی اپنی عبوری رپورٹ میں تنظیم نے تشدد کی لہر کا ذمہ دار کراچی کی بڑی سیاسی جماعتوں کو ٹھہرایا ہے جب کہ اس کے مطابق جرائم پیشہ عناصر بھی بدامنی کا ناجائز فائدہ اُٹھا رہے ہیں۔

ایچ آر سی پی کا کہنا ہے کہ شہر میں ”امن کی کنجی“ بھی سیاسی جماعتوں کے ہاتھ میں ہے۔

XS
SM
MD
LG