رسائی کے لنکس

کراچی میں رواں سال 500 ہلاکتیں، قاتل بدستور گمنام


کراچی میں رواں سال 500 ہلاکتیں، قاتل بدستور گمنام
کراچی میں رواں سال 500 ہلاکتیں، قاتل بدستور گمنام

کراچی میں گذشتہ تین سالوں کے دوران خاص طور پر ”ٹارگٹ کلنگ“ کے واقعات میں غیر معمولی اضافہ ہواہے۔ سکیورٹی حکام کا الزام ہے کہ ان وارداتوں میں شہر کی بڑی سیاسی جماعتو ں کے عسکری دھڑے ملوث ہیں۔

پاکستانی معیشت کی شاہ رگ کہلانے والے شہر کراچی میں رواں سال اب تک جرائم، سیاسی دشمنی، لسانی جھگڑوں اورفرقہ وارانہ تشدد کے واقعات میں کم از کم پانچ سو افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

صوبہ سندھ کے محکمہ ء داخلہ کے یہ اعداد و شمار مقامی میڈیا نے جاری کیے ہیں جن میں منگل کو ہونے والی ہلاکتیں شامل ہیں۔

مرنے والوں کی ایک بڑی تعداد ایسے افراد کی ہے جو ” ٹارگٹ کلنگ“ یعنی ہدف بنا کر سیاسی مخالفین کو قتل کرنے کے واقعات کا کا نشانہ بنے ہیں۔

صوبہ سندھ کے محکمہ داخلہ کے مشیر شرف الدین میمن نے منگل کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ وہ ان اعداد و شمار سے متفق نہیں تاہم اُنھوں نے کہا کہ فوری طور پر وہ سرکاری اعداد و شمار بتانے سے قاصر ہیں۔

اُنھوں نے کہا کہ ان واقعات میں ملوث لگ بھگ ایک سو زیر حراست مشتبہ افراد سے تفتیش جاری ہے اور بعض کے خلاف جلد مقدمات درج کر کے کارروائی شروع کردی جائے گی۔

شرف الدین میمن کا کہنا تھا کہ کراچی میں قیام امن کے سلسلے میں ایک جامع منصوبے پر عمل درآمد شروع کر دیا گیا ہے اور جرائم پیشہ افراد سے متعلق معلومات کے حصول کے علاوہ نگرانی کے لیے سکیورٹی کیمروں کی تنصیب بھی کی جا رہی ہے۔

لیکن ناقدین ان دعوں کو سیاسی بیانات قرار دیتے ہیں کیونکہ سیاسی دبا ؤ کا شکار پولیس اگر اصلی قاتل کو گرفتار کر بھی لیتی ہے تو وہ زیادہ دیر حراست میں نہیں رہ پاتا۔

کراچی میں گذشتہ تین سالوں کے دوران خاص طور پر ”ٹارگٹ کلنگ“ کے واقعات میں غیر معمولی اضافہ ہواہے۔ سکیورٹی حکام کا الزام ہے کہ ان وارداتوں میں شہر کی بڑی سیاسی جماعتو ں کے عسکری دھڑے ملوث ہیں۔

کراچی میں رواں سال 500 ہلاکتیں، قاتل بدستور گمنام
کراچی میں رواں سال 500 ہلاکتیں، قاتل بدستور گمنام

صوبائی محکمہء داخلہ کی ایک حالیہ شائع شدہ رپورٹ کے مطابق سیاسی جماعتوں میں سرفہرست متحدہ قومی مومنٹ، عوامی نیشنل پارٹی،مہاجر قومی مومنٹ (حقیقی ) جبکہ بعض مذہبی گروہ ہیں۔

ایم کیو ایم اور اے این پی نے ان الزامات کو مسترد کیاہے۔دونوں پارٹیاں صوبے اور مرکز میں حکمران پیپلز پارٹی کی اتحادی ہیں اور بظاہر سیاسی مفادات کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے رحمن ملک نے گذشتہ دنوں پارلیمان میں یہ بیان دیا کہ” کراچی میں ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں کوئی سیاسی جماعت ملوث نہیں ہے۔“ ان کا یہ بیان صوبائی محکمہ داخلہ کی رپورٹ کی صریحاََ نفی ہے۔

عام نوعیت کے جرائم میں ہلاکتیں دنیا کے کسی بھی بڑے شہر میں معمول کی بات سمجھی جاتی ہیں لیکن کراچی میں ہدف بنا کر قتل کے واقعات میں حالیہ مہینوں کے دوران غیر معمولی اضافہ حکمرانوں کے لیے باعث تشویش ہے۔

ناقدین کا کہنا ہے کہ سابق صوبائی وزیر داخلہ ذوالفقارمرزا کی انتظامیہ نے شہر میں پیپلزپارٹی کے کارکنوں پر مشتمل جو ”پیپلز امن کمیٹیاں‘‘ قائم کیں جو دراصل حکمران سیاسی جماعت کا ایک عسکری دھڑا تھا اور یہ اضافہ کراچی میں امن وامان قائم کرنے کی کوششوں کے لیے کوئی اچھا شگون نہیں ہے۔ مبصرین کو خدشہ ہے کہ یہ پیش رفت پاکستان کے اس سب سے بڑے شہر میں آنے والے دنوں میں مزید خون خرابے کا باعث بنے گی۔

ایم کیو ایم نے پیپلز امن کمیٹیوں کے ارکان کو شہر میں بدامنی کا ذمہ دار ٹھہرایا تھا، جس کے بعد ذوالفقار مرزا نے بظاہر حکمران جماعت کی قیادت کے کہنے پر ان کو ختم کرنے کا اعلان کیا تھا۔

غیر جانبدار ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے رواں ماہ جاری کی گئی اپنی سالانہ رپورٹ میں کہا ہے کہ 2010ء میں کراچی میں لسانی اور فرقہ وارانہ تشدد میں مجموعی طور پر 210 افراد ہلاک ہوئے تھے جبکہ ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں 538 لوگ مارے گئے جن میں 237 سیاسی کارکن تھے۔

تنظیم کا کہنا ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں عوام کو تحفظ فراہم کرنے یا ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں ملوث افراد کو گرفتار کرنے میں ناکام رہی۔ ”سیاسی کارکنوں کی اتنی بڑی تعداد میں ہلاکتیں کراچی میں سیاسی وابستگیاں رکھنے والوں کو درپیش خطرات کی غمازی کرتیں ہیں۔لیکن نہ تو قاتلوں کی شناخت ہو سکی ہے اور نہ ہی کسی کو سزا دی جاسکی ہے۔“

رپورٹ کے مطابق مسلسل مطالبات کے باوجود کراچی شہر کو اسلحے سے پاک کرنے کے لیے کوئی کوشش نہیں کی جاسکی ہے۔ ”تمام مبصرین اس بات پر متفق ہیں کہ ٹارگٹ کلنگ کی وجہ کراچی میں سیاسی دھڑوں اور قبضہ گروہوں کے درمیان شہر میں اپنا کنٹرول قائم رکھنے کی جنگ ہے۔“

یہ بھی پڑھیے

XS
SM
MD
LG