رسائی کے لنکس

سینیٹ انتخابات، خیبر پختونخواہ میں پولنگ کا عمل متاثر


غیر حتمی نتائج بھی سامنے آنا شروع ہوگئے جن میں پنجاب سے مسلم لیگ ن نے اکثریتی نشستیں جیت لی ہیں جب کہ وفاق سے بھی یہ دو نشستیں لینے میں کامیاب رہی ہے۔

پاکستان کے ایوان بالا "سینیٹ" کی خالی ہونے والی 52 نشستوں میں سے 48 کے لیے جمعرات کو قومی و صوبائی اسمبلی کے ارکان نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا۔

لیکن وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں کے اراکین کے لیے ووٹنگ کے طریقہ کار میں تبدیلی کے لیے بدھ کو رات دیر گئے ’آرڈیننس‘ یعنی صدارتی حکم نامے کے اجرا اور صوبہ خیبر پختونخواہ میں مبینہ دھاندلی کے الزامات کے باعث ووٹنگ کا عمل متاثر ہوا۔

صوبہ خیبر پختونخواہ میں حزب مخالف کی جماعت کی طرف سے دھاندلی کے الزامات کے باعث صوبائی اسمبلی میں پولنگ کا عمل صبح ساڑھے دس بجے سے شام چار بجے تک معطل رہا۔

تاہم طویل مشاورت اور سیاسی جرگے میں اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ پولنگ کا وقت رات آٹھ بجے تک بڑھا دیا گیا جس کے بعد وہاں اراکین صوبائی اسمبلی نے اپنا حق رائے دہی استعمال کرنا شروع کیا۔

صوبائی حکومت میں شامل عہدیداروں کا کہنا ہے کہ حزب مخالف کی جماعت سے تعلق رکھنے والے اراکین اسمبلی نے زبردستی پولنگ رکوائی ہے جب کہ پیپلز پارٹی اور جمیعت علمائے اسلام فضل الرحمٰن گروپ کے اراکین نے حکمران جماعت تحریک انصاف کے اراکین پر الزام لگایا کہ وہ بیلٹ پیپرز اسمبلی ہال سے باہر لے جا رہے تھے۔

تاہم حکمران جماعت کی طرف سے ایسے الزامات کی تردید کی گئی۔ صوبائی وزیراطلاعات مشتاق غنی نے اس بارے میں ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو میں کہا کہ صوبائی اسمبلی کا مکمل کنٹرول الیکشن کمیشن کے پاس ہے۔

سندھ سے چار نشستوں پر امیدوار پہلے ہی بلا مقابلہ منتخب ہو چکے ہیں جن میں پیپلز پارٹی کے فاروق ایچ نائیک اور سسی پلیجو جب کہ متحدہ قومی موومنٹ کے بیرسٹر محمد علی سیف اور نگہت مرزا شامل ہیں۔

دیگر نشستوں کے لیے قومی و صوبائی اسمبلیوں میں پولنگ کا عمل صبح نو بجے شروع ہوا جو شام چار بجے تک جاری رہا۔

سینیٹ میں ارکان کی تعداد 104 ہے جس میں آئین کے مطابق تمام صوبوں کو یکساں نمائندگی حاصل ہے۔ ایوان بالا کے لیے ہر صوبے سے 23 جب کہ وفاق سے چار اور وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں سے آٹھ نشستیں ہیں۔

52 ارکان 11 مارچ کو اپنی رکنیت کی معیاد پوری ہونے پر سبکدوش ہو رہے ہیں۔

سینیٹ انتخابات میں بڑے پیمانے پر ووٹوں کی خریدو فروخت "ہارس ٹریڈنگ" کی خبریں منظر عام پر آتی رہی ہیں جسے روکنے کے لیے حکومت نے تجویز دی تھی کہ آئین میں ترمیم کر کے خفیہ رائے شماری کی شرط کو ختم کیا جائے۔

لیکن سیاسی جماعتوں میں اتفاق رائے نہ ہونے کی وجہ سے اس بارے میں پیش رفت نہ ہو سکی جب کہ الیکشن کمیشن یہ کہہ چکا ہے کہ انتخابات خفیہ رائے شماری کے ذریعے ہی منعقد ہو رہے ہیں۔

رائے دہندگان کے ووٹنگ کے وقت موبائل فون یا کوئی بھی ایسا آلہ ساتھ لے کر جانے پر پابندی بھی عائد کر دی گئی ہے جس سے تصویر بنائی جا سکے۔

حکمران مسلم لیگ (ن) سینیٹ میں اکثریت حاصل کرنے کے لیے پرعزم ہے کیونکہ اس انتخاب سے پہلے ایوان بالا میں حزب مخالف کی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کی اکثریت تھی۔

جمعرات کی شام کو غیر حتمی نتائج بھی سامنے آنا شروع ہوگئے جن میں پنجاب سے مسلم لیگ ن نے اکثریتی نشستیں جیت لی ہیں جب کہ وفاق سے بھی یہ دو نشستیں لینے میں کامیاب رہی ہے۔

حکومت مخالف پاکستان تحریک انصاف صرف خیبرپختونخواہ سے سینیٹ کے انتخابات میں حصہ لے رہی ہے جہاں اس کی اپنی حکومت ہے۔ اس جماعت کے ارکان قومی اسمبلی کے علاوہ پنجاب اور سندھ کی اسمبلیوں سے استعفے دے چکے ہیں۔

XS
SM
MD
LG