رسائی کے لنکس

بھارت سے بامعنی مذاکرات چاہتے ہیں: سرتاج عزیز


Le secrétaire d'Etat américain John Kerry à Nairobi le 22 août 2016.
Le secrétaire d'Etat américain John Kerry à Nairobi le 22 août 2016.

اُمور کشمیر کے وفاقی وزیر برجیس طاہر نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ خطے میں دیرپا امن کا قیام اُس وقت تک ممکن نہیں جب تک کہ کشمیر کے مسئلے کو حل نہیں کرلیا جاتا۔

پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف کے مشیر برائے اُمورخارجہ و قومی سلامتی سر تاج عزیز نے کہا کہ اُن کا ملک بھارت کے ساتھ بامعنی مذاکرات چاہتا ہے اور اُن کے بقول کشمیر کے تنازع پر بات چیت کے بغیر مذاکرات میں پیش رفت ممکن نہیں۔

بدھ کو قومی اسمبلی میں وقفہ سوالات کے دوران تحریری بیان میں سرتاج عزیر نے ایوان کو بتایا کہ ایسی اطلاعات ہیں کہ امریکہ کے صدر براک اوباما نے اپنے حالیہ دورہ بھارت کے دوران وہاں کی حکومت سے کہا کہ وہ مسائل کے حل کے لیے پاکستان سے مذاکرات کا آغاز کرے۔

واضح رہے کہ بھارت اور امریکہ کی طرف سے اس بارے میں کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے۔ صدر براک اوباما نے گزشتہ ماہ بھارت کا تین روزہ سرکاری دورہ کیا تھا۔

سرتاج عزیز نے قومی اسمبلی کو بتایا کہ مذاکرات کی بحالی کی ذمہ داری اب بھارت پر عائد ہوتی ہے کیوں کہ ان کے بقول بھارت نے ہی سیکرٹری خارجہ سطح کے مذاکرات منسوخ کیے تھے۔

اُدھر قومی اسمبلی نے بدھ کو ایک قرار داد منظور کی جس میں اقوام متحدہ اور بین الاقوامی برادری سے کہا گیا کہ وہ کشمیر کے تنازع کے حل میں کردار ادا کریں۔

اُمور کشمیر کے وفاقی وزیر برجیس طاہر نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ خطے میں دیرپا امن کا قیام اُس وقت تک ممکن نہیں جب تک کہ کشمیر کے مسئلے کو حل نہیں کر لیا جاتا۔

"امریکہ نے بھی ثالثی پیشکش کی تھی جسے بھارت نے تسلیم نہیں کیا پھر چین نے بھی اپنا کردار ادا کرنے کا کہا تھا۔ ہم تو تیار ہیں اقوام متحدہ کے قرارداد کو ماننے کے لیے ان کے مبصرین کو ماننے کے لیے۔"

دریں اثناء پاکستان کے سیکرٹری خارجہ اعزاز احمد چوہدری نے اسلام آباد میں اسلامی ممالک کی تنظیم (او آئی سی) کے رکن ممالک کے سفیروں کو کشمیر سے متعلق پاکستان کے موقف سے آگاہ کیا۔

XS
SM
MD
LG