رسائی کے لنکس

اداکارہ تمنا بھی رخصت ہوئیں


اداکارہ تمنا بھی رخصت ہوئیں
اداکارہ تمنا بھی رخصت ہوئیں

اداکارہ تمنا جن کا اصل نام صوفیہ بیگم تھا ،پاکستان فلم انڈسٹری کا وہ ستون تھیں جسے وہ 29سال تک تھامے رہیں ۔ اگرچہ ان کی فنی زندگی 46سالوں پر محیط تھی مگر ان سالوں میں انہوں نے ریڈیو، ٹی وی، ماڈلنگ اور اسٹیج کو بھی وقت دیا۔ وہ خوش نصیب تھیں کہ ہرشعبے میں کامیاب رہیں۔

تمنا نے اداکاری کے شعبے میں جو محنت کی سو کی، زندگی کی گاڑی کھینچانے میں بھی انہیں عمربھر شدید محنت کرنا پڑی۔ ان کے والد دہلی کے اور والدہ بریلی کی تھیں ۔ والدین پاکستان بننے سے ایک سال پہلے کراچی ا ٓبسے تھے۔ اس دور میں ان کی رہائش کراچی کا پاکستان چوک کا علاقہ ہوا کرتا تھا۔یہیں سے انہوں نے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ انہوں نے گریجویش کیا تھا۔

انہیں سن 1961ء میں ریڈیو پروڈیوسر ایس ایم سلیم نے ریڈیو پاکستان پر بطورصداکار متعارف کرایا ۔ ایک ڈرامے میں کامیابی کے بعد انہیں ایک کے بعد ایک ڈرامے ملتے چلے گئے۔ ”منو کی جان“ان کا پہلا ریڈیو ڈرامہ تھا۔ان کی صداکاری کی مہارت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ ڈرامے کے وقت ان کی عمر بہت کم تھی مگر انہوں نے از خود ایس ایم سلیم سے کہہ کر ایک عمرداز خاتون کا رول منتخب کیا تھا اور اسے اس قدر شاندار طریقے سے ادا کیا کہ سب ان کی صداکاری کے دیوانے ہوگئے۔

سن 1965ء میں جب انہیں فلموں میں کام کی تلاش ہوئی تو کمال احمد رضوی انہیں اسٹیج ڈراموں کی طرف لے آئے حالانکہ نہ تو انہوں نے کبھی اداکارہ کی تھی اور نہ ہی کبھی اداکارہ بننے کاانہوں نے سوچا تھا۔ کمال احمد رضوی نے ہی انہیں ڈرامے دلوالے جو ان کا ذریعہ معاش بنے۔ اس وقت کراچی فلم انڈسٹری بھی زندہ تھی ۔ یہیں انہیں اپنی پہلی فلم”سرحد“ میں کام کرنے کا آفر ہوئی جو ناصرف انہوں نے قبول کی بلکہ ایسی اداکاری کی کہ ایک ہی فلم سے ان کی شہرت لاہور جاپہنچی۔

دراصل ”سرحد“ ریلیز ہوئی تو آغا طالش، علاوٴالدین، اعجاز درانی، شہلا خان، حسنہ اورسلونی سمیت کئی فنکاروں نے لاہور فلم انڈسٹری میں آکر مشہور کردیا کہ انڈسٹری میں تمنا نام کی ایک لڑکی آئی ہے اور بہت اچھا کارم کررہی ہے ۔اس خبر کا پہنچنا تھا کہ انڈسٹری ان کا انتظار کرنے لگی کیوں کہ اس وقت لاہور ہی پاکستان کی اصل فلم انڈسٹری تھا۔

تمنا لاہور پہنچیں تو وہاں ان کے لئے فلموں کی لائن لگ گئی۔انہوں نے پندرہ سال تک لاہور فلم انڈسٹری پر راج کیالیکن پھر والدہ نے انہیں کراچی واپس بلوالیا۔یہیں 1975ء میں ان کی شادی ہوگئی ۔ شادی کے بعد انہوں نے فلم انڈسٹری کو خیر باد کہہ دیا ۔ لیکن ابھی کچھ ہی عرصہ گزرا تھا کہ نمائش چورنگی پرٹریفک حادثے میں ان کے شوہرکا انتقال ہوگیا۔ اوریوں انہیں ایک مرتبہ پھر فلموں کوذریعہ معاش بنانا اور لاہور شفٹ ہونا پڑا۔ کیوں کہ گھر کی ذمے داریوں کے ساتھ ساتھ ایک بچی کی ذمے داری بھی ان ہی کے سر تھی۔

وہ واپس لاہور پہنچیں توہاتھوں ہاتھ لیں گئیں۔ ایک ہفتے میں ہی تیرہ فلمیں ان کے نام ہوگئیں۔ پھر چودہ سال تک وہی لاہور انڈسٹری پر چھائی رہیں ۔ لیکن پھر کراچی کی یاد ستانے لگی۔لہذا انہوں نے ایک مرتبہ پھر فلم انڈسٹری کو خیبر بار کہا اور کراچی آگئیں۔ اس بار کراچی آنے کی وجہ رورز بہ روز بدلتا ہوا فلمی ماحول تھا جس میں وہ خود کو ایڈجسٹ کرنا نہیں چاہتی تھیں۔

تمنا نے اپنے فنی کیرئر میں کم و بیش 200سے زیادہ فلموں میں کام کیا ۔ ”پیغام، شکوہ، آشیانہ، بھروسا، انجمن، فرض، صورت اور سیرت، آگ کا دریا، پرکھ، بہن بھائی، نوکر ، نذرانہ، سسرال، محبت ایک کہانی ان کی کامیاب فلموں کے نام ہیں ۔انہیں بہترین کردار نگاری پر دوبار نگار ایوارڈسے نوازا گیا۔

سن 1964ء میں بننے والی فلم ”آشیانہ “ ان کی بہترین فلموں میں ہمیشہ سرفہرست رہے گی جبکہ دیگر فلموں میں ”امراو جان ادا، سسرال، بھروسا، انول، محبت شامل ہیں ۔

فلم انڈسٹری میں قریبی لوگ انہیں پیار سے” آپا “ یا ” پیاری آپا“ کہہ کر پکارا کرتے تھے ۔ انہوں نے شباب کیرالوی پروڈکشن کے تحت بننے والی بیشتر فلموں میں کام کیا۔ شباب کیرالوی ہی کی فلم” نوکر“اور ”بھروسا“ کے بعد ان کی جوڑی معروف اداکار ننھا کے ساتھ بنی۔ ننھا شادی شدہ تھے مگر نازلی نامی ایک اداکارہ کے عشق میں گرفتار تھے ۔ تمنا نے ننھا کو بہت سمجھایا کہ وہ نازلی کو بھول جائیں مگر ننھا پر تو جیسے نازلی کا بھوت سوار تھا۔ انہوں نے عشق کی انتہا کردی یہاں تک کہ نازلی سے محبت میں ناکامی پر خود کشی تک کرڈالی۔

تمنا نے کچھ پنجابی فلموں میں بھی کام کیا تھا جن میں سے ایک گجر دا کھڑاک بھی تھی جو سال 2004ء کی کامیاب ترین پنجابی فلم ثابت ہوئی۔ تمنا کو محمد علی زیبا کے ساتھ ساتھ نوعمر فنکاراوٴں مثلاً ریما کے ساتھ بھی کام کرنے کا تو موقع ملا۔

وہ تقریباً دو سال سے بیمار اور بستر پر تھیں۔ ذیابیطیس کے سبب ان کے گردے فیل ہوچکے تھے ۔ انہیں پندرہ سال پہلے یہ مرض ہوا تھا ۔ انہوں نے زندگی کے آخری دن نہایت کسمپرسی میں گزارے۔ ان کی آمدنی کا کوئی ذریعہ نہیں تھا۔ وہ ڈائیلیس کراتی تھیں۔ پہلے نجی اسپتال میں انہوں نے اپنا علاج کرایا جس پربہت کم مدت میں لاکھوں روپے خرچ آیا پھر ایک سرکاری اسپتال سے علاج کراتی رہیں ۔لیکن پیر 20فروری کو موت کے فرشتے کو یہ بھی منظور نہ ہوا اور بلاخر تمنا کو اس فرشتے کے ساتھ ہی ملک عدم جانا پڑا۔

XS
SM
MD
LG