رسائی کے لنکس

غیر سرکاری تنظیموں کی کارگزاری کی سخت نگرانی کا مطالبہ


رواں ماہ کے اوائل میں ہی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے اعلان کیا تھا کہ ملک میں کام کرنے والی 50 بین الاقوامی غیر ملکی تنظیموں کو کام کرنے کی اجازت دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے

پاکستان میں کام کرنے والی غیر سرکاری اداروں یعنی این جی اوز خصوصاً بین الاقوامی تنظیموں سے متعلق ایک بار پھر نگرانی اور جانچ کے مطالبات سامنے آئے ہیں۔

اس بار ملک کے ایوان زیریں "قومی اسمبلی" کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کے ایک اجلاس میں اس بابت تشویش کا اظہار کرتے ہوئے قانون سازوں کی طرف سے حکومت سے کہا گیا کہ ان تنظیموں کو ملنے والے وسائل اور ان کی کارگزاری سے متعلق نگرانی کا واضح اور موثر نظام وضع کیا جائے۔

گزشتہ سال بچوں کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرنے والی ایک بین الاقوامی تنظیم "سیوو دی چلڈرن" کے اسلام آباد میں واقع دفتر کو پولیس کی طرف سے اس بنا پر سر بمہر کر دیا گیا کہ یہ تنظیم مبینہ طور پر غیرقانونی سرگرمیوں میں ملوث ہے۔

اس اقدام پر ملک میں کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیموں کی طرف سے خاصی تنقید کی گئی لیکن اسے مسترد کرتے ہوئے وزارت داخلہ نے غیر سرکاری تنظیموں کے اندراج کا نیا طریقہ کار وضع کرنے کا اعلان کیا تھا۔

رواں ماہ کے اوائل میں ہی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے اعلان کیا تھا کہ ملک میں کام کرنے والی 50 بین الاقوامی غیر ملکی تنظیموں کو کام کرنے کی اجازت دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے جب کہ دیگر 15 ایسی ہی تنظیموں کی جانچ پڑتال اس بارے میں قائم متعلقہ کمیٹی کرے گی۔

قائمہ کمیٹی کے رکن ساجد نواز خان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں قانون سازوں کے تحفظات سے متعلق آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ غیر سرکاری تنظیموں کو ملنے والے وسائل اور ان کے کام کو شفاف بنانے کی اشد ضرورت ہے۔

"ان کو جو فنڈز ملتے ہیں، کتنے ملتے ہیں کہاں سے ملتے ہیں اس چینل کو ہم نے کہا کہ اس کو ٹھیک کریں تاکہ ایک ایک روپے کا حساب ہو کہ کتنا روپیہ آیا ہے کہاں لگا ہے۔۔۔شفاف طریقہ ہو اس کا حساب کتاب ہونا چاہیے۔"

وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان بھی یہ کہہ چکے ہیں کہ کئی ایسے غیر سرکاری ادارے ہیں جو اپنے دائرہ کار سے باہر جا کر کام کر رہے ہیں، یعنی کہ جن علاقوں میں انھیں کام کرنے کی اجازت دی گئی تو وہ اس کی بجائے کسی ایسے علاقے میں سرگرم نظر آئے جہاں انھیں جانے کی اجازت نہیں تھی۔

غیر سرکاری تنظیموں کی طرف سے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کے تازہ اجلاس پر تو کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا لیکن ایسے اداروں سے وابستہ لوگ یہ کہتے آئے ہیں کہ وہ باقاعدہ اندارج اور قانونی تقاضے پورے کرنے کے بعد ہی اپنی سرگرمیاں شروع کرتے ہیں اور وہ اپنے کام سے مختلف فلاحی شعبوں میں حکومت کا ہاتھ بٹاتے ہیں۔

XS
SM
MD
LG