رسائی کے لنکس

سیلاب: پاکستان کو مؤثر کردار کے لیے بین الاقوامی تعاون درکارہے


سیلاب: پاکستان کو مؤثر کردار کے لیے بین الاقوامی تعاون درکارہے
سیلاب: پاکستان کو مؤثر کردار کے لیے بین الاقوامی تعاون درکارہے

پاکستان کے سیلاب سے متاثرہ علاقوں کی امداد اور تعمیر نوکے لیے جہاں غیر ملکی امدادی ادارے، مخیر افراد اور پاکستانی حکومت کام کررہی ہے وہاں پاکستانی فوج نے اپنے بہت سے وسائل متاثرہ افراد کی امداد کے لیے مختص کررکھے ہیں اوراس کے ساتھ ساتھ وہ سرحد پر انتہا پسندوں کے خلاف اپنی مہم بھی جاری رکھے ہوئےہے۔ ادھر واشنگٹن میں بعض ماہرین نے اس خدشہ کا اظہار کیاہے کہ مزید بین الاقوامی امداد کے بغیر پاکستانی فوج کے لیےیہ بوجھ بہت بھاری ثابت ہو سکتا ہے۔

واشنگٹن میں بعض ماہرین کاکہناہے کہ پاکستان میں سیلاب متاثرین کے لیے امدادی کارروائیوں میں پاک فوج بہت اہم کردار ادا کر رہی ہے۔ لیکن انہیں فکر ہے کہ پاکستان کی توجہ فی الحال انسداد دہشت گردی سے ہٹ گئی ہے۔

تحقیق دان اور تجزیہ کار حیدر ملک نے پاکستان کے ایک حالیہ دورے کے دوران یہ جانچنے کی کوشش کی کہ سیلاب متاثرین کے لیے امدادی کارروائیو ں کی طرف وسائل مختص کرنے کی وجہ سے انتہا پسند گروہوں کے خلاف پاکستانی فوجی کارروائیاں کہاں تک متاثر ہوئی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ عسکریت پسند عناصر یقنا زور پکڑ رہے ہیں، اور فوج پر دباو پڑ رہا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس وقت واشنگٹن کو پاکستانی فوج کی مدد کرنی چاہیے۔ کیونکہ پاکستانی فوج اتنی بڑی نہیں، اور نہ اس کے پاس اتنے وسائل ہیں، کہ وہ ایک ساتھ تمام مسائل کا سامنا کر سکے۔

حیدر ملک کا کہنا ہے کہ پاکستانی فوج کو مزید ہیلی کاپٹروں، فوجی تربیت اور ان وسائل کی فراہمی اور استعمال کی بہتر کی نگرانی سے بہت فائدہ ہو سکتا ہے۔ پاکستان سے اس وقت اپنی سرحد پر دہشت گرد عناصر کے خلاف مزید فوجی کارروائیوں کی توقع کی جارہی ہے۔ لیکن واشنگٹن کے ایک تحقیقی ادارےایٹلانٹک کونسل کے شجاع نواز کہتےہیں کہ امریکہ نے پاکستان کو ابھی تک دہشت گردی کی روک تھام کے لیے وہ تمام امداد فراہم نہیں کی، جس کی پاکستان کو ضرورت ہے۔

ان کا کہناتھا کہ میرے نزدیک بہت ضروری ہے کہ اب جو کچھ افغانستان کی جنگ میں ہو رہا ہے۔ وہاں سے اور عراق سے اب نیشنل گارڈز کے یونٹ نکالے جارہے ہیں۔ تو امریکہ کی نیشنل گارڈز کے پاس بہت سے ہیلی کاپٹر موجود ہیں۔ اور میں حیران ہوں کہ ابھی تک امریکہ نے وہ پاکستان کو فراہم کیوں نہیں کیے۔

انہیں تعجب اس بات پر بھی ہے کہ گو بین الاقوامی کمیونٹی پاکستان میں امدادی کارروائیاں کر رہی ہے، لیکن امداد کو موثر بنانے کے لیے بین الاقوامی سطح پر کوئی ایسا ادارہ تشکیل نہیں دیا گیا ہے، جو امدادی کارروائیوں کی نگرانی کر سکے۔

وہ کہتے ہیں کہ یہ ایک بہت بڑا خلا ہے۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ اقوام متحدہ کے تحت ایک ایسا ادارہ بنایا جائے بنایا جائے۔ جو مختلف اداروں اور تنظیموں میں بٹے ہوئے امور کو ایک پلیٹ فارم پر حل کرے۔

عالمی بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک کا اندازہ ہے کہ پاکستان میں سیلابوں کی وجہ سے اب تک نو ارب 70 کروڑ ڈالر سے زیادہ کا نقصان ہو چکا ہے۔ اور ماہرین کو فکر ہے کہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں ٕمیں تعمیر نو میں بہت وقت لگ سکتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ تعمیر نو کے مرحلے میں پاکستانی عوام بہت اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔

جانز ہاپکنز یونیورسٹی کے تجزیہ کار والٹر اینڈرسن کا کہنا ہے کہ امریکہ پاکستان کو کافی حد تک امداد فراہم کر رہا ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ اس بات کا اعتراف بھی کرتے ہیں کہ دہشت گرد عناصر کے خلاف جنگ پاکستانی فوج پر ایک بہت بھاری بوجھ ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ بالآخر پاکستانی عوام اور حکومت کو بھی سیلاب زدگان کی امداد اور سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں تعمیر نو کی ذمہ داری قبول کرنی ہوگی۔ پاکستانی شہریوں اور پرائیویٹ سیکٹر نے امدادی سرگرمیوں میں حصہ لیا ہے اور تعمیر نو میں بھی شریک ہونے کو تیار ہیں، لیکن ڈاکٹر اینڈر سن سمیت بہت سے امریکی ماہرین کو یقین ہے کہ ان امدادی سرگرمیوں کی کامیابی کا انحصار بہترتعاون پر ہو گا۔

XS
SM
MD
LG