رسائی کے لنکس

بین المذاہب اجلاس میں انتہا پسندی کے خلاف اتحاد کا عزم


بین المذاہب اجلاس میں انتہا پسندی کے خلاف اتحاد کا عزم
بین المذاہب اجلاس میں انتہا پسندی کے خلاف اتحاد کا عزم

پاکستان میں مختلف مذاہب اور مسالک سے تعلق رکھنے والے رہنماؤں اور سکالروں نے مذہب کے نام پر دہشت گردی کی تمام صورتوں میں مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ دنیاکا کوئی بھی مذہب خودکش حملوں کو جائز قرار نہیں دیتا۔

اسلام آباد میں وزارت مذہبی امور کے زیر اہتمام منعقد ہ قومی بین المذاہب کانفرنس میں شریک مختلف مکاتب فکر کے اسلامی سکالروں ،ہندو،سکھ اور مسیحی رہنماؤں کے علاوہ بدھ مت کے پیروکاروں نے خودکش حملوں کو اپنے اپنے مذاہب کے مطابق ناجائز قراردیتے ہوئے کہا کہ مذہبی مقامات،اسکولوں، ہسپتالوں اور عوامی مقامات پر دہشت گردانہ حملے بدترین بربریت ہیں۔

کانفرنس کے اختتام پر جاری ہونے والے مشترکہ اعلامیے میں کہا گیا کہ پاکستان میں بسنے والے مختلف مذاہب اور مسالک کے لوگ اپنی صفوں میں مکمل اتحاد،برداشت اور ہم آہنگی قائم کرکے ان دہشت گردانہ اور انتہا پسندانہ عناصر کو شکست دینے میں فوج اور حکومت کا ساتھ دیں گے جو ان کے مطابق بے گناہ شہریوں کو ہلاک کرکے ملک کی بنیادوں کو کمزور کرنا چاہتے ہیں۔

اعلامیے میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ حکومت مذہبی منافرت اور عدم برداشت پیدا کرنے والی تقاریر اور لٹریچر پر پابندی عائد کرتے ہوئے اس ضمن میں قانون سازی کرے اور تعلیمی نصاب کو ہرطرح کے انتہا پسندانہ عنصر سے پاک کرتے ہوئے بین المذاہب ہم آہنگی کا مضمون متعارف کرائے۔

کانفرنس کے بعد وائس آف امریکہ سے انٹرویو میں اقلیتوں کے وفاقی وزیر شہباز بھٹی نے بتایا کہ مذہبی ہم آہنگی کو فروغ دینے اورشدت پسند عناصر سے مشترکہ طور پر نمٹنے کے لیے ماہ رمضان کے بعدایک قومی بین المذاہب کونسل جب کہ ضلعی سطح پر کمیٹیاں تشکیل دی جارہی ہیں۔

کراچی سے آئے ہوئے ڈاکٹر فخر الحسن کراروی نے کہا کہ ” اگر خوکش حملے جائز ہوتے تو اسلام میں خودکشی بھی جائز ہوتی، اگر اپنے آپ کو مارنا حرام ہے تو کسی دوسرے کی جان لینا کیسے جائز ہوسکتا ہے۔“

کلیان سنگھ
کلیان سنگھ

سکھ مذہب سے تعلق رکھنے والے کلیان سنگھ اور ہندو مذہب کے ہارون سرب دیال کا کہنا تھا کہ ان کے مذاہب انھیں اسلام سمیت ہر مذہب کا احترام کرنے کا درس دیتے ہیں اور وہ پاکستان کے شہری ہونے کے ناطے اس ملک کا مکمل دفاع کریں گے۔

خیبر پختونخواہ کے صوبائی خطیب روح اللہ مدنی کا کہنا تھا کہ مذہبی رہنماؤں کو دہشت گردانہ واقعات پر آپس میں الزام تراشی کرنے کی بجائے اپنے اصل دشمن کو پہچاننا چاہیے جس کا ان کے بقول اپنا کوئی مذہب نہیں ہے۔

یہ کانفرنس ایک ایسے وقت پر منعقد ہوئی ہے جب حال ہی میں لاہور میں قادیانیوں کی عبادت گاہوں کے بعد داتادربار کو بھی دہشت گردانہ حملوں کا نشانہ بنایاگیا اور ان واقعات میں سو سے زائد افراد ہلاک اور زخمی ہوئے۔

XS
SM
MD
LG