رسائی کے لنکس

فلسطین: اقوام متحدہ کی رکنیت کا حصول بظاہر ممکن نہیں


فلسطین: اقوام متحدہ کی رکنیت کا حصول بظاہر ممکن نہیں
فلسطین: اقوام متحدہ کی رکنیت کا حصول بظاہر ممکن نہیں

فلسطین کے صدر محمود عباس نے کہا ہے کہ وہ اگلے ہفتے اقوامِ متحدہ کی مکمل رکنیت حاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔ تاہم تجزیہ کار کہتے ہیں کہ اس کوشش کے کامیاب ہونے کا امکان کم ہے اور اس سے فلسطینیوں کی الگ مملکت بنانے کی کوششوں کو نقصان پہنچے گا۔

اقوامِ متحدہ کے مکمل رکن کی حیثیت سے قبول کیے جانے کے لیے، فلسطینیوں کو سلامتی کونسل کے ووٹ کی ضرورت ہوگی۔

تجزیہ کار کہتے ہیں کہ مسٹر عباس کی یہ کوشش ناکام ہوگی، کیوں کہ امریکہ نے واضح کر دیا ہے کہ وہ سلامتی کونسل کے ذریعے فلسطینیوں کی مملکت بنانے کی کوشش کوویٹو کر دے گا۔ واشنگٹن سمجھتا ہے کہ مشرقِ وسطیٰ میں امن کے حصول کا صرف ایک ہی طریقہ ہے اور وہ ہے اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان براہِ راست مذاکرات۔

اسرائیل کے ساتھ مذاکرات میں فلسطینی قیادت کے ایک سابق مشیر، خالد الجندی کہتے ہیں کہ یہ معاملہ سلامتی کونسل میں لےجا کر فلسطینی امریکہ کو ایک پیغام دیناچاہتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’ در حققیقت، اس پیغام کامقصد یہ بتانا ہے کہ امریکہ نے امن کے عمل کو جس طرح چلایا ہے، اس پر فلسطینیوں کو اعتماد نہیں۔ حالات نے جو رُخ اختیارکیا ہے، فلسطینی اس پر ناخوش ہیں، اور وہ سمجھتے ہیں کہ امریکہ نے کوئی متبادل حکمت عملی، کوئی دوسرا طریقہ، تجویز نہیں کیا ہے۔ امریکہ نے یہ بات واضح کر دی ہے کہ وہ اقوام متحدہ میں فلسطینیوں کی کوشش کے خلاف ہے اور اسے ویٹو کر دے گا، لیکن اس نے کوئی عملی متبادل راہ تجویز نہیں کی ہے۔‘‘

الجندی کہتے ہیں کہ امریکہ کے ویٹو سے علاقے میں اس کی ساکھ پر برا اثر پڑے گا۔ انھوں نے کہا کہ ’’اور یہ سب ایسے وقت میں ہو گا جو اس علاقے کی تاریخ میں بڑا حساس لمحہ ہے کیوں کہ ارد گرد کے ملکوں میں، مصر میں، شام میں، اور دوسرے ملکوں میں تبدیلیاں آ رہی ہیں۔ آج کل امریکہ کی ساکھ اس علاقے میں بہت خراب ہے اور اس اقدام سے اور زیادہ خراب ہو جائے گی۔‘‘

لیکن اقوامِ متحدہ میں امریکہ کے سابق سفیر، جان بولٹن کاخیال ہے کہ امریکہ کے ویٹوسے عرب دنیا میں واشنگٹن کی ساکھ مزید خراب نہیں ہو گی۔ وہ کہتے ہیں’’میرے خیال میں ایسا نہیں ہو گا۔ عرب دنیا امریکہ کے موقف کو اچھی طرح سمجھتی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ وہ اسے پسند نہ کرتے ہوں، لیکن اگر امریکہ نے سکیورٹی کونسل میں ویٹو کا استعمال کیا، تو یہ کوئی حیرت کی بات نہیں ہوگی۔‘‘

بہت سے تجزیہ کار پوچھ رہے ہیں کہ مسٹر عباس نے فلسطینی مملکت کے معاملے کو اس وقت سلامتی کونسل میں اٹھانے کا فیصلہ کیوں کیا ہے۔

خالد الجندی کہتے ہیں کہ اس کی ایک وجہ امن کے عمل میں پیش رفت کا فقدان ہے۔ مہینوں سے فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کے درمیان مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کا معاملہ تعطل کا شکار ہے۔ ان کے مطابق ’’میرے خیال میں حالات میں تیزی آنے کی ایک اور وجہ عرب موسم بہار ہے، یعنی وہ انقلابی جذبہ جس نے اس پورے علاقے کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ لہٰذا فلسطینی قیادت پر بہت زیادہ دباؤ ہے کہ وہ کوئی نتیجہ دکھائے، اس امن کے عمل کا جو ایک، دو یا تین برس سے نہیں بلکہ صحیح معنوں میں تقریباً دو عشروں سے جاری ہے، اور اب تک اس طریقہ کار کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا ہے۔

بولٹن کہتے ہیں کہ امن کے عمل کو دوبارہ شروع کرنا مشکل ہو گا۔ انھوں نے کہا کہ ’’امن کا عمل ختم ہو چکا ہے۔ اور میرا خیال یہ ہے کہ عباس کے ذہن میں، یہی وجہ ہے کہ وہ اقوامِ متحدہ میں کوئی کارروائی شروع کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن سچی بات یہ ہے کہ اس طرح امن کے عمل میں کوئی آسانی پیدا نہیں ہوگی، بلکہ یہ کام اور زیادہ مشکل ہو جائے گا۔

تجزیہ کار کہتے ہیں کہ اگر،جیسا کہ توقع کی جا رہی ہے، امریکہ نے سلامتی کونسل میں اپنا ویٹو کا حق استعمال کیا، تو فلسطینی اپنی الگ ریاست بنانے کی درخواست جنرل اسمبلی کے سامنے لے جا سکتے ہیں۔ لیکن ماہرین کہتے ہیں کہ اگر ان کی درخواست قبول کر لی گئی، تو اس طرح انہیں پورے رکن کا درجہ حاصل نہیں ہو گا۔ اس سے صرف یہ ہوگا کہ ان کی مبصر کی موجودہ حیثیت کا درجہ بہتر ہو جائے گا۔

XS
SM
MD
LG