رسائی کے لنکس

چھ ہزار سال پرانی نیلی دھاریاں


کپڑے کا چھ ہزار سال پرانا ٹکڑا
کپڑے کا چھ ہزار سال پرانا ٹکڑا

چھ ہزار سال پہلے پیرو کے یہ قدیم لوگ نہ صرف یہ جانتے تھے کہ ایک مخصوص قسم کے پودے کے ریشوں سے دھاگہ کس طرح بنایا جاتا ہے بلکہ انہیں یہ بھی علم تھا کہ اس دھاگے سے کپڑا کیسے بنا جاتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ وہ کپڑے کو رنگ دینے کے پیچیدہ طریقے سے بھی واقف تھے۔

شاید آپ کو یہ جان کر حیرت ہو کہ آج سے چھ ہزار سال پہلے کا انسان نہ صرف کپڑے بننے کے فن سے آشنا تھا بلکہ اسے رنگوں کا استعمال بھی آتا تھا۔ وادی نیل میں فرعونوں کی تہذیب سے دو ہزار پہلے کا انسان یہ بھی جانتا تھا کہ کپڑوں پر رنگوں کے نمونے کس طرح بنائے جاتے ہیں۔

یہ قدیم انسان زمین کے اس ٹکڑے پر آباد تھا جسے آج سے چند سو سال پہلے ایک بحری مہم جو کولمبس نے دریافت کرنے کے بعد اسے امریکہ کا نام دیا۔

ایک نئی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ آج سے تقریباً چھ ہزار سال پہلے جنوبی امریکہ کے قدیم باشندے کپاس جیسے ایک پودے کے ریشوں سے دھاگا بنا کر یہ صرف کپڑا بنتے تھے بلکہ ان پر گہرے نیلے رنگ سے خوبصورت دھاریاں بھی بناتے تھے۔ ماہرین کو تجزیے سے معلوم ہوا ہے کہ نیلا رنگ ایک خاص قسم کے پودے کے عرق سے حاصل کیاجاتا تھا۔

آثار قدیمہ کے ماہرین کو جنوبی امریکہ کے ملک پرو سے کھدائی کے دوران کپڑے کے چند ٹکڑے ملے ہیں جن میں سے کچھ پر گہرے نیلے رنگ کی دھاریاں موجود ہیں۔ چھ ہزار سے زیادہ عرصہ گذر جانے کے باوجود دھاریو ں کا رنگ بہتر حالت میں ہے جس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ انہیں اس رنگ کو پختہ اور دیر پا بنانے کا فن بھی آتا تھا۔

یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہیں ہے کہ تاریخ کے ابتدائی ادوار سے لے کر آج کے زمانے تک نیلا رنگ انسان کا سب سے پسندیدہ رنگ رہا ہے۔ لباس ہو یا تعمیرات یا آرائش و زیبائش کی چیزیں، ان میں نیلے رنگ کی چھاپ زیادہ گہری دکھائی دیتی ہے۔ پاکستان اور ہندوستان کی قدیم عمارتوں، مقبروں اورعبادت گاہوں میں نقش و نگار اور عبارتیں لکھنے کے لیے زیادہ تر نیلے رنگ کا ہی استعمال کیا گیا ہے۔

آج کے جدید زمانے میں مردوں کے لباس میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والا رنگ نیلا ہی ہے اور اس کا ایک اور دلچسپ پہلو یہ ہے کہ تقریباً چھ عشرے قبل نیلے رنگ کو خواتین سے منسوب کیا جاتا تھا اور ان کے زیادہ تر ملبوسات نیلے رنگوں کے مختلف شیڈز کے ہوتے تھے۔

پیرو میں کپڑے کے قدیم ٹکڑوں کی ریافت سے پہلے قدیم ترین کپڑے کا تعلق چین سے تھا۔ آثار قدیمہ کے ماہرین کا کہنا ہے کہ چین سے ملنے والے کپڑے کا زمانہ تقریباً4400 سال پرانا ہے۔ جب کہ مصر کی قدیم تہذیب کی باقیات سے بھی کپڑوں کے ایسے ٹکڑے ملے ہیں جن پر گہرا نیلا رنگ گیا تھا۔ ان کے قدامت کا تخمنیہ تین ہزار سال لگایا گیا ہے۔

بحرالکاہل کے قریب واقع پیرو کے علاقے ہواکا پریٹا(Huaca Prieta) سے ملنے والی باقیات کے متعلق ماہرین کا کہنا ہے کہ وہاں 7600 سے لے کر 4000 سال پہلے تک انسانی آبادیاں موجود تھیں۔ یہ بستیاں پتھر اور مٹی کے گارے سے تعمیر کی گئی تھیں۔ وہاں عمارتوں کے ساتھ ساتھ قبرستان کی باقیات بھی ملی ہیں۔ وہاں کھدائی کا آغاز 1940 کے عشرے میں ہوا تھا اور ریڈیو کاربن ڈیٹنگ (Radiocarbon dating) اور دوسرے جدید سائنسی تجزیوں سے مٹی میں دفن باقیات کی عمر کا اندازہ لگایا گیا ۔

ہواکا پریٹا سے 2009 میں ایک کھدائی کے دوران کپڑے کے ٹکڑے دریافت ہوئے جس پر گہرے نیلے رنگ کی دھاریاں تھیں۔ جدید سائنسی تجزیوں سے معلوم ہوا کہ وہ 6200 سے 6000 سال پرانے ہیں۔

سائنسی جریدے سائنس اور سائنس ایڈانسز،روزنامہ لاس اینجلس ٹائمز اورکئی ددسری میڈیا سائٹس پر شائع ہونے والی رپورٹس میں امریکہ کی جارج واشنگٹن یوینورسٹی میں علوم بشریات کے ایک ماہر جیفری سپلیٹوسر(Jeffrey Splitstoser) کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ بہت ممکن ہے کہ یہ دنیا میں کپڑا رنگنے کی قدیم ترین مثال ہو۔ میرے علم میں اس سے پرانا کوئی نمونہ موجود نہیں ہے۔

پروفیسر سپلیٹوسرنے ، جو ٹیکسٹائل امور میں مہارت رکھتے ہیں بتایا کہ انہوں نے کپڑے کے جن ٹکڑوں کا تجزیہ کیا، وہ ایک سے تین فٹ سائز کے چوکور ٹکڑے تھے ۔ انہیں غالباًسامان باندھنے کے لیے بنایا گیا تھا ۔ کیونکہ ان میں آستینیں اور گلا وغیرہ نہیں تھا۔ انہوں نے یہ خیال ظاہر کیا کہ کپڑے کے ان ٹکڑوں میں غالباً چڑھاوے کا سامان کسی عبادت گاہ میں لے جایا جاتا تھا اور پھر انہیں سامان کے ساتھ وہیں چھوڑ دیا جاتا تھا۔

یوینورسٹی کالج لندن میں کیمسٹری کے ایک ماہر جین ووٹرز(Jan Wouters) نے بتایا کپڑے کے تجزیے سے انہیں پتا چلا کہ اس میں استعمال کیا جانے والا بنفشی نیلا رنگ ، ایک جنگلی پودے نیل (Indigofera) سے حاصل کیا گیا تھا۔ دلچسپ پہلو یہ ہے کہ یہ پودا دنیا بھر میں نیلے رنگ کے حصول کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔

چھ ہزار سال پہلے پیرو کے یہ قدیم لوگ نہ صرف یہ جانتے تھے کہ ایک مخصوص قسم کے پودے کے ریشوں سے دھاگہ کس طرح بنایا جاتا ہے بلکہ انہیں یہ بھی علم تھا کہ اس دھاگے سے کپڑا کیسے بنا جاتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ وہ کپڑے کو رنگ دینے کے پیچیدہ طریقے سے بھی واقف تھے۔

پروفیسر سپلیٹوسر کہتے ہیں آج کے دور میں ہم یہ سمجھتے ہیں کہ قدیم زمانے کے انسان کاعلم بہت محدود تھا اور انہیں دنیا کے بارے میں کچھ پتا نہیں تھا لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ بہت ذہین اور سمارٹ لوگ تھے اور ہم ان کے ساتھ مل کر رہ سکتے تھے۔

  • 16x9 Image

    جمیل اختر

    جمیل اختر وائس آف امریکہ سے گزشتہ دو دہائیوں سے وابستہ ہیں۔ وہ وی او اے اردو ویب پر شائع ہونے والی تحریروں کے مدیر بھی ہیں۔ وہ سائینس، طب، امریکہ میں زندگی کے سماجی اور معاشرتی پہلووں اور عمومی دلچسپی کے موضوعات پر دلچسپ اور عام فہم مضامین تحریر کرتے ہیں۔

XS
SM
MD
LG