رسائی کے لنکس

ایک دریا دل شہر جہاں 'پرندے' بھی بھوکے نہیں سوتے


پرندوں کو رزق پہنچانے کی ذمہ داری عموماً شہری انتظامیہ کی ہوا کرتی ہے۔ لیکن اس نیک کام میں کراچی کے شہری بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں

کروڑوں کی آبادی والے شہر کراچی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہاں اگر کوئی آکر بس جائے تو پھر اسکا یہاں سے جانے کو جی نہیں کرتا۔ انسان تو انسان، یہاں تو پرندوں کو بھی ان کا رزق مل ہی جاتا ہے۔

کراچی ایسا 'دریا دل' شہر ہے جہاں کے پرندے بھی بھوکے نہیں سوتے۔ اکثر اس کا وسیلہ ایک عام شہری بنتا ہے۔ کراچی شہر میں بسنے والے پرندوں کے رزق پہنچانے کی ذمہ داری عموماً شہری انتظامیہ کی ہوا کرتی ہے، مگر اس کو پورا کراچی کے دریا دل شہری کرتے ہیں۔

کراچی کی اہم شاہراہ سندھ اسمبلی اور سندھ سیکرٹریٹ کے درمیان ایک بڑی چورنگی 'کبوتر چورنگی' کے نام سے منسوب ہے، جسکی وجہ دور دراز سے آنےوالے کبوتر کی موجودگی ہے جو ہزاروں کی تعداد میں یہاں آکر دانا چگتے ہیں اور پیٹ بھرجانے پر واپس اپنے ٹھکانے پہنچ جاتے ہیں۔

فاطمہ بی بی بھی انہی شہریوں میں سے ایک ہیں، جو ہفتہ وار اپنے ننھے پوتے پوتیوں کے ہمراہ یہاں آتی ہیں اور یہیں ان کبوتروں کو دانہ ڈالتی ہیں۔

’وی او اے‘ کی نمائندہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا

ایک بچہ بڑے شوق سے کبوتروں کو دانا ڈال رہا ہے
ایک بچہ بڑے شوق سے کبوتروں کو دانا ڈال رہا ہے
کہ مجھ سے زیادہ میرے پوتا پوتیوں کو اس میں مزہ آتا ہے اور خوشی محسوس ہوتی ہے کہ وہ بھوکے کبوتروں کو دانہ ڈالتے ہیں۔

’دراصل، بچے ضد کرتے ہیں کہ ہمیں یہاں لے کر چلیں، ہم پرندوں کو کھانا کھلائیں گے"


دانہ ڈالنے آئے ہوئے ایک اور شہری نے ’وی او اے‘ کو بتایا کہ وہ اکثر یہاں آکر کبوتروں کو دانا ڈال کر ایک جانب بیٹھ جاتے ہیں۔ اُنھیں اِن پرندوں کو کھاتے دیکھ کر روحانی خوشی ملتی ہے۔

ایک اور خاتون بتاتی ہیں کہ گھروں کے باہر یا اکثر بالکونیوں میں بھی لوگ مٹی کونڈیاں لگا کر یا برتنوں میں دانہ پانی ڈال دیتے ہیں۔

یہ بھی اچھا کام ہے۔ مگر، یہ چورنگی ایک کھلی جگہ ہے جہاں باآسانی پرندے آجاکر اپنی خوراک جگتے ہیں۔

شہریوں کا ایسا کرنا ایک اچھا اقدام ہے جس سے اچھا تاثر ملتا ہے کہ انسان کو پرندوں کا احساس ہے۔


ایک سوال کے جواب میں نوجوان شہری نے بتایا کہ انتظامیہ کی جانب سے شہریوں کی آسانی کیلئے سہولتیں نایاب ہیں
بڑی تعداد میں کبوتر دانہ چگ رہے ہیں
بڑی تعداد میں کبوتر دانہ چگ رہے ہیں
۔ ایسے میں بھلا، وہ پرندوں کے حقوق کا کسے خیال ہوگا؟

یہ چورنگیاں ان بے گھر و بے زبان پرندوں کیلئے اچھا ذریعہ خوراک بن گئی ہے جسے شہری پورا کررہے ہیں۔


اسی کبوتر چورنگی کے احاطے میں بابا دانے والا بھی ہے، جو ایک جانب ڈبوں میں ان کبوتروں کیلئے باجرہ، دانہ رکھ کر فروخت کر رہا ہے۔ جو شہری بھی یہاں آتا ہے بابا دانے والے سے خرید کر ان پرندوں کو دانہ ڈالتا ہے۔

نمائندہ سے گفتگو میں اُن کا کہنا تھا کہ، ’کبوتر بہت بھولا پرندہ اور انسان سے قربت کا خواہاں ہوتا ہے۔‘ وہ پچھلے 10سالوں سے یہیں بیٹھ کر شہریوں کو ان کبوتروں کیلئے دانہ فروخت کررہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’شہری 10 روپے سے لے کر 100 روپے تک کا دانہ خرید کر ان کبوتروں کو ڈالتے ہیں جس سے میرا گزر بسر چل رہاہے‘۔

اُنھوں نے بتایا کہ کہنے کو تو وہ کوئی اور کام بھی کرسکتا ہے؛ شہر میں روزگار مل ہی جاتا ہے۔ مگر وہ بذات خود بھی پرندوں کیلئے جذبہ رکھتا ہے۔
پرندوں کو کھلاناے کیلئے شہری قریب سے خرید کر دانا ڈالتے ہیں
پرندوں کو کھلاناے کیلئے شہری قریب سے خرید کر دانا ڈالتے ہیں
اس لئے اس کام سے وابستہ ہے۔

کراچی شہر کی اس کبوتر چورنگی کے علاوہ نمائش چورنگی، حیدری اور دیگر علاقوں میں بھی کئی ایک مقامات ہیں جہاں شہری آکر پرندوں کو دانہ ڈال کر خوشی اور مسرت محسوس کررہے ہیں۔


دوسری جانب، بابا دانے والے جیسے افراد کو بھی روزگار میسر آگیا ہے۔
XS
SM
MD
LG