رسائی کے لنکس

پاناما لیکس: تحقیقات کا طریقہ وضع کرنے کے لیے پارلیمانی کمیٹی بنانے کی تجویز


حزب مخالف کی جماعتوں کی طرف سے مسلسل یہ مطالبہ کیا جاتا رہا کہ وزیراعظم نواز شریف پارلیمان کے اجلاس میں آ کر وضاحت دیں۔

پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف نے پیر کو قومی اسمبلی سے خطاب میں تجویز پیش کی کہ احتساب کا نظام وضح کرنے کے لیے حزب مخالف کی جماعتوں کے قائدین کی مشاورت سے ایک پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی جائے۔

پاناما لیکس کے معاملے پر وضاحتی بیان دیتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ مشاورت سے تحقیقات کے طریقہ کار اور ضابطہ کار کو وضع کیا جائے۔

’’جناب اسپیکر میری درخواست ہے کہ آپ قائد حزب اختلاف خورشید شاہ صاحب اور دیگر پارلیمان لیڈرز کی مشاورت سے ایک پارلیمانی کمیٹی بنائیں جو اتفاق رائے سے جامع ٹرمز آف ریفرنس اور دیگر معاملات کو حتمی شکل دے تاکہ بدعنوانیوں کا ارتکاب کرنے والوں کا تعین اور محاصبہ کیا جا سکے‘‘۔

اُنھوں نے کہا کہ وہ مجوزہ طریقے کے تحت مزید تفصیلات اور حقائق پیش کریں گے۔ ’’ یہاں یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ ایوان کی مجوزہ کمیٹی جو بھی فورم اور طریقہ کار طے کرے گی میرے بیان کردہ حقائق کی مزید تفصیل تمام تر شواہد کے ساتھ اس کے سامنے رکھ دی جائے گی۔‘‘

وزیراعظم کا کہنا تھا کہ وہ نہیں چاہتے کہ الزام تراشی کا یہ معاملہ یوں ہی ختم ہو جائے بلکہ اُن کے بقول ’’دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہونا چاہیئے۔‘‘

اُنھوں نے کہا کہ بغیر تحقیقات کے سیاستدانوں کی طرف سے الزام لگانے سے سیاست بے وقار ہوتی ہے۔

خطاب کے دوران وزیراعظم نے اپنے خاندان کے کاروبار کی تفصیلات بتانے کے بعد نام لیے بغیر تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ بھی ذرائع آمدن قوم کے سامنے رکھیں۔

’’میں نے پوری دیانتداری کے ساتھ اپنے خاندانی کاروبار اور مالی حیثیت کی تفصیل بیان کر دی ہے لیکن آج عالیشان گاڑیوں میں گھومنے، بڑے بڑے قطع ہائے زمین پر پھیلے محلات میں رہنے، ہیلی کاپٹروں اور جہازوں میں اڑنے اور دنیا بھر کی سیر و سیاحت کرنے والے بھی مناسب سمجھیں تو اس ایوان اور قوم کو آگاہ کر دیں کہ ان کے سفر کا آغاز کیسے ہوا 70 اور 80 کی دہائی میں وہ کہاں کھڑے تھے اور آج ان کی شاہانہ زندگی کے ذرائع آمدنی کیا ہیں۔‘‘

وزیراعظم کے خطاب کے بعد اپوزیشن جماعتوں کے ممبران نے ایوان سے واک آؤٹ کیا اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف خورشید نے کہا کہ وزیراعظم نواز شریف نے اُن کے سوالات کے جوابات نہیں دیئے۔

اس موقع پر عمران خان نے کہا کہ وہ اپنے ذرائع آمدن اور اثاثوں کی وضاحت کے لیے تیار ہیں۔

’’میاں صاحب پر لازم تھا کہ مشترکہ اپوزیشن نے جو سوال پوچھے تھے اُن کا جواب دیتے۔‘‘

اگرچہ پاناما لیکس کے معاملے پر وزیراعظم دو مرتبہ ٹیلی ویژن اور ریڈیو کے ذریعے قوم سے خطاب کر چکے ہیں، لیکن حزب مخالف کی جماعتوں کی طرف سے مسلسل یہ مطالبہ کیا جاتا رہا کہ وزیراعظم نواز شریف پارلیمان کے اجلاس میں آ کر وضاحت دیں۔

پاناما لیکس میں وزیراعظم کے دو بیٹوں حسین اور حسن نواز کے علاوہ مریم نواز کے نام سامنے آنے کے بعد حزب مخالف کی جماعتوں کی طرف سے حکومت تنقید کی زد میں رہی۔

گزشتہ ہفتے یہ خبر بھی سامنے آئی تھی کہ تحریک انصاف کے سربراہ نے بھی 1983 میں ایک آف شور کمپنی بنائی تھی، جس کا اعتراف خود عمران خان نے بھی کیا۔

پیر کو اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو میں عمران خان کا کہنا تھا کہ جمہوریت میں حزب مخالف کا حق ہے کہ وہ وزیراعظم سے وضاحت مانگے۔

’’کوئی اب چھپ نہیں سکتا۔۔۔۔ عمران خان کو بھی ہر چیز کا جواب دینا ہے، نواز شریف کو بھی ہر چیز کا جواب دینا ہے۔ یہ ہے جمہوریت۔‘‘

وزیراعظم نواز شریف کی ایوان میں آمد سے قبل قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف خورشید شاہ کی قیادت میں تمام اپوزیشن جماعتوں کا مشاورتی اجلاس بھی ہوا۔

حزب مخالف نے پاناما لیکس میں اب تک سامنے آنے والے پاکستانی شہریوں سے متعلق مجوزہ عدالتی کمیشن کی تحقیقات کے لیے مشترکہ ضابطہ کار بھی مرتبہ کیا، لیکن حکومت نے اُسے مسترد کر دیا۔

اسی طرح حکومت کی طرف سے تحقیقات کے لیے مرتبہ کردہ ضابطہ کار کو اپوزیشن جماعتیں رد کر چکی ہیں۔

وزیراعظم نے حزب مخالف کے مطالبے پر عدالتی کمیشن کی تشکیل کے لیے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو اپریل کے اواخر میں ایک خط لکھا تھا، جس کے جواب میں گزشتہ ہفتے ہی عدالت نے کہا کہ تھا کہ پاکستان کمیشن آف انکوائری قانون کا دائرہ کار بہت محدود ہے اور اس کے تحت بنایا جانے والا کمیشن بے اخیتار ہو گا اور اس سے کوئی مفید مقصد حاصل نہیں ہو سکے گا۔

عدالت عظمیٰ کے خط میں یہ بھی کہا گیا کہ مجوزہ کمیشن کی تشکیل سے متعلق حتمی فیصلے سے قبل یہ ضروری ہے کہ جن افراد، خاندانوں، گروپس اور کمپنیوں کے خلاف تحقیقات کی جانی ہیں اُن کی تعداد اور اُن سے متعلقہ کوائف موجود ہوں۔

وزیراعظم نے کہا کہ پیر کو قومی اسمبلی کے اجلاس سے خطاب میں یہ کہا کہ مجوزہ کمیشن کے حوالے سے چیف جسٹس کی طرف سے لکھے گئے خط کا حکومت کے قانونی مشیر جائزہ لے ہیں۔

XS
SM
MD
LG