رسائی کے لنکس

سب قصور پولیو ویکسین کا ہے۔۔۔


تو پھر، دنیا مناتی رہے ڈاکٹر جوناس ساک کی 100 ویں سالگرہ کا جشن اور ہوتی رہے احسان مند پولیو کی پہلی کامیاب ویکسین کی تیاری پر۔۔۔ ہمیں اس سے کیا۔۔۔

امریکہ سمیت دنیا آج ڈاکٹر جوناس ساک کی 100 ویں سالگرہ کے موقع پر انہیں خراج ِ تحسین پیش کر رہی ہے۔۔۔ ڈاکٹر جوناس ساک نے آج سے کئی دہائیاں قبل اُس وقت پولیو کی پہلی کامیاب ویکسین تیار کرنے کا کارنامہ سر انجام دیا تھا، جب یہ مرض ناقابل ِعلاج تھا اور پولیو کے ہاتھوں ہزاروں بچوں کی زندگیاں تباہ ہو رہی تھیں۔

50ء کی دہائی میں امریکہ میں پولیو سے متاثرہ مریضوں کی تعداد 45 ہزار سے زائد تھی مگر 1955ء میں جوناس ساک کی پولیو ویکسین کے بعد یہ تعداد کم ہوتی چلی گئی اور 1962ء میں امریکہ میں پولیو سے متاثرہ مریضوں کی تعداد محض 910 رہ گئی تھی۔ یہ سب ڈاکٹر جوناس کی ویکسین کی کامیابی کی بدولت ممکن ہو سکا تھا جس کے لیے آج بھی انسانیت ڈاکٹر جوناس کی احسان مند دکھائی دیتی ہے۔ گو کہ بعد میں پولیو سے متعلق کئی دیگر کامیاب ویکسینز بھی سامنے آئیں۔

آج کے دن کی مناسبت سے ہی معروف سرچ انجن ’گوگل‘ پر جوناس ساک کے لیے خاص ’گوگل ڈوڈل‘ بھی تیار کیا گیا ہے۔۔۔ جس میں بہت سے بچے کھیلتے کودتے دکھائی گئے ہیں اور یہ بچے ڈاکٹر جوناس ساک کا شکریہ ادا کر رہے ہیں۔۔۔ غالباً زندہ قومیں اپنے ہیروز کو ایسے ہی یاد کیا کرتی ہیں۔۔۔ ہم تو شاید آج سے سو برس بعد بھی ڈاکٹر عبدالسلام اور ان جیسے بہت سے معتر ناموں پر تبٓرے بھیج رہے ہوں گے جنہوں نے پاکستان کو ایک نئی پہچان اور جہت عطا کی۔۔۔ کہ ہم میں اپنے ہیروز کو معتوب ٹھہرانے کی عادت اتنی پختہ ہو چکی ہے کہ اگلی کئی صدیوں تک شاید اس عادت سے پیچھا چھڑانا ممکن نہ ہو۔۔۔

جہاں ایک طرف امریکہ ڈاکٹر جوناس ساک کو یاد کر رہا ہے اور اپنے لوگوں کو بتا رہا ہے کہ ڈاکٹر جوناس نے پہلی پولیو ویکسین تیار کرکے کیسا کارنامہ سر انجام دیا تھا، وہیں آج پاکستان میں ہر نیوز چینل کی پہلی سُرخی کچھ یوں ہے ’خیبر پختونخواہ میں پولیو کے مزید چار کیسز کا انکشاف‘۔۔۔ اس خبر کو محض اتفاق سمجھیں؟ معاشرے کی اجتماعی نالائقی اور جہالت پر تعبیر کریں یا پھر حکومت کی صحت ِعامہ کی طرف غفلت اور عدم توجہی کا منہ بولتا ثبوت کہہ کر کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر لیں؟۔۔۔ کاش آنکھیں بند کر لینے سے بلی واقعی غائب ہو سکتی۔۔۔

دنیا بھر میں پولیو اب قصہ پارینہ ہو چکا مگر پاکستان میں اس مرض کی گونج ابھی تک باقی ہے۔۔۔ پاکستان کے علاوہ یہ مرض اب صرف افغانستان اور نائجیریا جیسے پسماندہ اور ترقی پذیر ممالک میں ہی پایا جاتا ہے۔۔۔ عالمی ادارہ ِصحت کے اعداد و شمار زیادہ بھیانک منظرکشی کرتے دکھائی دیتے ہیں جن کے مطابق رواں برس پاکستان میں اب تک پولیو کے 220 کیسز سامنے آ چکے ہیں جو کہ 1997ء کے بعد ایک نیا ریکارڈ ہے۔۔۔

لیکن ہم یہ نیا ریکارڈ کیسے نہ بناتے؟۔۔۔ کیا ہمیں یاد ہے کہ گذشتہ کچھ سالوں میں پاکستان کے کتنے ہی شہروں اور قصبوں میں پولیو پلانے والے عملے کے کتنے ارکان کو بے دردی سے قتل کر دیا گیا۔۔۔ جن کا جرم صرف یہ تھا کہ وہ پولیو کی ویکسین پلانے پر مامور تھے اور ایک دن کے کام کے عوض محض دو ڈھائی سو روپے کماتے تھے؟۔۔۔ مگر کیا ہوا، کیا پولیو عملے کو حکومت کی طرف سے کوئی تحفظ فراہم کیا گیا؟۔۔۔ یقیناً نہیں۔۔۔ اور مسئلہ صرف پولیو عملے کو تحفظ فراہم کرنے سے حل ہو سکتا تو کیا ہی بات تھی۔۔۔ پولیو ویکسین کے خلاف عوام کی سوچ سے کیسے لڑیں؟۔۔۔ کیا ہم پاکستان میں عام طور پر پائے جانے والے اس تاثر کو زائل کرنے میں کامیاب ہو سکے کہ پولیو ویکسین خاندانی منصوبہ بندی کے ادارے یا بچوں کو تولیدی صلاحیت سے محروم کرنے کی سازش نہیں بلکہ انہیں معذوری سے بچانے اور معاشرے کا صحتمند شہری بنانے کی ایک کاوش ہے؟۔۔۔

تو پھر دنیا مناتی رہے ڈاکٹر جوناس ساک کی 100 ویں سالگرہ کا جشن اور ہوتی رہے احسان مند پولیو کی پہلی کامیاب ویکسین کی تیاری پر۔۔۔ ہمیں اس سے کیا۔۔۔ ہمارے ہاں تو پولیو ابھی بھی مہلک ترین مرض ہے اور نہ جانے اگلے کتنے سالوں تک رہے گا۔۔۔ یقیناً سب قصور ’پولیو ویکسین‘ کا ہے جو مغرب نے مشرق کے معصوم لوگوں کو ایک سازش کے ذریعے پلانے کی کوشش کی۔۔۔ مگر ہمارا یہ عزم ہے کہ مغربی سازش کامیاب نہ ہونے دیں گے۔۔۔ بے شک اس کی قیمت ہمارے بچوں کو پولیو کے مرض سے پوری زندگی لڑنے کی صورت میں ہی کیوں نہ ادا کرنا پڑے؟

XS
SM
MD
LG