رسائی کے لنکس

”عسکریت پسندوں کے آگے ہتھیار نہیں پھینکیں گے“


”عسکریت پسندوں کے آگے ہتھیار نہیں پھینکیں گے“
”عسکریت پسندوں کے آگے ہتھیار نہیں پھینکیں گے“

صدر زرداری نے پیپلز پارٹی کی قیادت میں مخلوط حکومت کی اقتصادی و سیاسی پالیسوں کا تفصیل سے ذکر کرتے ہوئے پارلیمان کے اراکین پر زور دیا کہ وہ آئین میں مجوزہ اٹھارویں ترمیم کو بلا تاخیر منظور کریں۔

پیر کو پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہو ئے صدر آصف علی زرداری نے کہا کہ عسکریت پسندی اور انتہا پسندی پاکستان کی قومی سلامتی کے لیے سب سے بڑا خطرہ بنے ہوئے ہیں اور اِن کے خاتمے تک پاکستان کی لڑائی جاری رہے گی۔ انھوں نے کہا کہ اس مقصد کے حصول کے لیے حکومت ہر خطرہ مول لینے کو تیا رہے لیکن پاکستانی قوم عسکریت پسندوں کے آگے ہتھیار نہیں پھینکے گی۔

صدر زرداری نے کہا کہ جو عسکریت پسند امن کی خواہش رکھتے ہیں حکومت ان کے ساتھ بات کرے گی لیکن جو لوگ حکومت کی عملداری کو تسلیم کرنے سے انکار کریں گے ان کے خلاف طاقت کا استعمال کیا جائے گا۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان کسی کو بھی اپنی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف دہشت گردی کی کارروائیوں کے لیے استعمال کرنے کی اجاز ت نہیں دے گا۔

اس موقع پر پاکستانی صدر نے افغان حکومت کو یہ یقین دہانی کرائی کہ ان کا ملک افغانستان میں امن کے قیام کی ہر اس کوشش کی حمایت کرے گا جو افغانوں کی قیادت میں کی جائے گی۔

پارلیمان سے اپنے خطاب میں صدر زرداری نے پیپلز پارٹی کی قیادت میں مخلوط حکومت کی اقتصادی و سیاسی پالیسوں کا تفصیل سے ذکر کرتے ہوئے پارلیمان کے اراکین پر زور دیا کہ وہ آئین میں مجوزہ اٹھارویں ترمیم کو بلا تاخیر منظور کریں۔ ان کے بقول پارلیمان کی آئینی کمیٹی کا تیار کردہ یہ مسودہ ایک تاریخی دستاویزہے اور گزشتہ تین دہایوں کے دوران آئین میں کی جانے والی یہ سب سے اہم اور بڑی ترمیم ہوگی جو ملک میں جموریت کے استحکام کا باعث بنے گی۔

صدر زرداری نے اپنی تقریر میں قومی مالیاتی کمیشن یا این ایف سی ایورڈ کے نئے فارمولے پر اتفاق رائے اور بلوچستان کے مسائل کے حل کے لیے حکومت کے اعلان کردہ آغاز حقوق بلوچستان پیکیج کو موجودہ حکومت کی بڑی کامیابیاں قرار دیا۔ صدر نے کہا کہ وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں یا فاٹا میں اصلاحات کے عمل کو جلد سے جلد مکمل کرکے وہاں اقتصادی منصوبوں کو مکمل کیا جائے گا۔

پاکستان کی تینو ں مسلح افواج کے سربراہان بھی صدر کا خطاب سننے کے لیے پارلیمنٹ میں موجود تھے لیکن اپوزیشن مسلم لیگ ن کے سربراہ نواز شریف اور ان کے بھائی وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے دعوت ملنے کے باوجوداجلاس میں شرکت نہیں کی۔

صدر کے خطاب کے موقع پر دارالحکومت میں سکیورٹی کے انتہائی سخت انتظامات کیے گئے تھے اور سول انتظامیہ کی مدد کے لیے فوج بھی
تعینات کی گئی تھی۔

XS
SM
MD
LG