رسائی کے لنکس

مصر:سیکولر نظامِ حکومت کے ضامنوں کی حیثیت سے فوج اپنا کلیدی کردار برقرار رکھے گی


مصر:سیکولر نظامِ حکومت کے ضامنوں کی حیثیت سے فوج اپنا کلیدی کردار برقرار رکھے گی
مصر:سیکولر نظامِ حکومت کے ضامنوں کی حیثیت سے فوج اپنا کلیدی کردار برقرار رکھے گی

مصر میں کابینہ کے ردو بدل اور آنے والے انتخابات کے تناظر میں’ واشنگٹن پوسٹ‘ کا یہ تجزیہ ہے کہ ملک کے جنرلوں نے یہ اشارے دینےشروع کردیے ہیں کہ انتخابات کے بعد نئے سربراہ ِ مملکت کو اقتدار سونپنے کے بعد اُنھیں امید ہے کہ سیکولر نظامِ حکومت کے ضامنوں کی حیثیت سے وہ اپنا کلیدی کردار برقرار رکھیں گے۔

حکمراں سپریم کونسل کے ایک اہم رُکن کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ فوج کو خصوصی حیثیت حاصل ہونی چاہیئے تاکہ وہ صدر کے تابع نہ ہو۔ اِس طرح یہ ترکی کے مماثل ہوگا جِس کی جمہوریت اُس کشیدگی کی وجہ سے ڈگمگاگئی تھی جو سیکولر فوج اور مقبول اسلامی نظریات کے زیر ِ اثر سیاست دانوں کے مابین ہے۔لیکن، اخبار کہتا ہے کہ یہ تصور کہ فوج ایک سیکولر مملکت کی ضامن ہوکر اُبھرے گی، سیکولر اور بائیں بازو سے تعلق رکھنے والوں کی اِس تھیوری کے برعکس ہے کہ سپریم کورٹ کا منظم اور مالدار اتحاد المسلمین کے ساتھ قریبی رابطہ ہے اور خیال یہی ہے کہ پارلیمانی انتخابات میں اِس تنظیم کی کارکردگی اچھی ہوگی۔

بائیں بازو سے متعلق بعض لوگ اور حقوقِ انسانی کے سرگرم کارکنوں کو فوجی قیادت کے بارے میں شہبات ہیں اور اُنھیں اِس پر تشویش ہے کہ فوج کو ملک کے مستقبل پر بہت زیادہ تصرف حاصل ہے۔

اخبار کہتا ہے کہ ملک کی سپریم کونسل نے اپنی مقبولیت کو برقرار رکھنے کے ساتھ ساتھ انتظامی ذمہ داریوں سے نمٹنے کی کوشش کی ہے جِس میں بجٹ ترتیب دینا اور قانون مرتب کرنا شامل ہے۔

’ہیوسٹن کرانیکل‘ ایک اداریے میں کہتا ہے کہ 2008ء میں محفوظ آبادیوں کے نام سے وفاقی پروگرام شروع کیا گیا تھا جِس کے تحت خطرناک جرائم پیشہ تارکینِ وطن کو واپس اپنے وطن بھیجنا مقصود تھا۔

اخبار کہتا ہے کہ بہت سے افراد کو نکال دیا گیا لیکن آبادیاں محفوظ نہیں محسوس کر رہیں، ایسے ہزاروں غیر قانونی طور پر آنے والے تارکینِ وطن ملک سے نکال دیے گئے ہیں جنھوں نے کوئی جرم نہیں کیا تھا۔

اخبار کو اس سے اتفاق ہے کہ حراست اور ملک بدری کے اِس سسٹم کے تحت جو شخص پکڑے جائیں اُس معاشرے کے لیے اُن میں سے ہر ایک خطرہ نہیں ہے۔چناچہ، اِمی گریشن اور کسٹم کا نفاذ کرنے والے شعبے کے سربراہ نے اِس پروگرام میں رد و بدل کا اعلان کیا ہے۔

اخبار کہتا ہے کہ ٹیکسس میں بغیر دستاویزوں کے تارکینِ وطن کی تعداد ایک کروڑ دس لاکھ ہے اور اُن میں سے بہت سوں نے معاشرے کی خدمت کی ہے اور یہ ضروری ہے کہ یہ بات ملحوظِ نظر رہے۔

’شکاگو ٹریبیون‘ ایک اداریے میں کہتا ہے کہ یہ بات تو یقین کے ساتھ نہیں کہی جاسکتی کہ موبائل یا سیل فون سے سرطان ہوگا یا نہیں لیکن یہ بات یقینی ہے کہ اِس سے توجہ ضرور بٹ جاتی ہے جس کا نتیجہ معمولی سی جھُنجھلاہٹ سے لے کر ہلاکت کی شکل میں نکل سکتا ہے۔

اِس کی مثال دیتے ہوئے اخبار چند ماہ قبل یُو ٹیوب پر نمودار ہونے والی ایک خاتون کی بھی ہے جو ایک سال سے گزرتے ہوئے سرجھُکائے پوری توجہ سے ٹیکسٹنگ کرتی ہوئی خراماں خراماں جارہی تھی کہ وہ ایک فوارے کے قریب پہنچی۔ توقع تو یہی تھی کہ اُس نے اِسے دیکھ لیا ہوگا لیکن نہیں۔ اُس کے قدم بالکل نہیں رُکے۔ بلکہ وہ سیدھی سر کے بل فوارے کے پانی میں گِرگئی۔ ذرہ اندازہ لگائیے وہ کسی بس سے یا کار سے ٹکرا سکتی تھی، کسی کھڈ میں گر سکتی تھی۔

اخبار کہتا ہے سڑک پر آپ کو ہر روز ایسے راہ گیروں سے واسطہ پڑتا ہے جو ٹیکسٹنگ یا سیل فون پر باتوں میں اِس قدر مستغرق ہوتےہیں کہ اُنھیں دنیا کا کوئی ہوش ہی نہیں ہوتا۔ اپنے خیالوں میں مگن ایسے لوگ دوسرے یا پیادہ لوگوں کے سائیکل سواروں اور ٹریفک کے اشاروں اور کاروں کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنی دُھن میں مست گھومتے پھرتے نظر آتے ہیں۔

اخبار کہتا ہے کہ 2008ء میں ایک ہزار سے زیادہ لوگ اسپتالوں کے ہنگامی علاج کے کمروں میں پہنچے تھے جوٹیکسٹنگ کرتے ہوئے یا تو ٹھوکر کھا کر گرے تھے یا کسی چیز سے ٹکرائے تھے۔

اخبار کہتا ہے کہ وہ مکمل پابندی کی حمایت تو نہیں کرتا لیکن اِس کا لوگوں مشورہ ہے کہ وہ عقل کے ناخن لیں۔ٹیکسٹنگ کرتے وقت توجہ دیں ، سڑک پر نظر رکھیں اور گاڑی چلا رہے ہوں تو ٹیکسٹنگ مت کریں۔

آڈیو رپورٹ سنیئے:

XS
SM
MD
LG